Tuesday 31 January 2017

عالمی یوم سرطان(کینسر)

عالمی یوم سرطان(کینسر)
(World Cancer Day, विश्व कैंसर दिवस)
4 فروری
عالمی یوم سرطان ہر سال ۴ فروری کو منایا جاتا ہے. جدید دنیا میں کینسر ایک ایسی بیماری ہے جس سے سب سے زیادہ اموات ہوتی ہیں اور دنیا میں اس بیماری کی زد میں سب سے زیادہ مریض ہیں. تمام کوششوں کے باوجود کینسر کے مریضوں کی تعداد میں کوئی کمی نہیں آ رہی ہے. اسی وجہ سے عالمی ادارہ صحت (WHO) نے ہر سال 4 فروری کو عالمی یوم سرطان  کے طور منانے کا فیصلہ کیا تاکہ لوگوں کو اس مہلک بیماری سے ہونے والے نقصان سے آگاہ کیا جا سکے. ایسا مانا جا رہا ہے 2030 تک کینسر کے مریضوں کی تعداد 1 کروڑ سے بھی زیادہ ہو سکتی ہیں. ایک اندازے کے مطابق 2005 میں 7.6 ملین افراد کینسر سے موت کی آغوش چلے میں گئے. اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کے مرنے سے اور عالمی سطح پر اس بیماری کے پھیلنے سے سب فکر مند ہیں.
آغاز
عالمی یوم سرطان پہلی مرتبہ ۲۰۰۵ میں منایا گیا تھا اور تب سے ہر سال اس دن کو کینسر کے تئیں لوگوںمیں بیداری لانے کے لیے منایا جارہا ہے۔ ہندوستان میں بھی اس دن تمام صحت تنظیموں نے بیداری پھیلانے کا فیصلہ لیا ہے. ہندوستان ان ممالک میں سرفہرست ہے جہاں تمباکو اور دیگر منشیات کی وجہ سے کینسر کے مریضوں کی تعداد بہت زیادہ ہے. کینسر ایک ایسی مہلک  بیماری ہے جس کا علاج تو ابھی تک ممکن نہیں ہو پایا ہے لیکن اس پر قابو پانا اور اس سے بچاؤ ممکن ہے.کسی کو اگر یہ مرض لاحق ہوجائے تو اس سے چھٹکارا پانا گرچہ مشکل ہے لیکن نا ممکن نہیں ہے۔ مریض اگر کامل یقین اور قوت ارادی سے اس بیماری کا سامنا کرے اور صحیح وقت پر علاج کرائے تو  اس کا علاج ممکن ہو جاتا ہے. یہ بھی جان لینا چاہئے کہ کینسر سے بچنے کے لیے علاج سے بہتر احتیاط ہے۔
احتیاط وہوشیاری:
کینسر سے بچنے کے لئے تمباکو کی مصنوعات کا استعمال نہ کیا جائے۔ کینسر کا خطرہ بڑھانے والے انفیکشن سے احتیاط لازمی ہے۔ چوٹ وغیرہ کا وقت پر علاج کرنے کے ساتھ خود کو ہمیشہ صحت مند رکھنے کی کوشش کی جائے۔ کینسر کے زیادہ تر کیس پھیپڑے اور گالوں میں سامنے آتے ہیں جو تمباکو نوشی کا نتیجہ ہوتی ہے۔ ایسے حالات میں علاج انتہائی پیچیدہ ہوجاتا ہے اور مریض کے بچنے کا امکان کم رہتا ہے۔  آج کل خواتین کے پستان میں کینسر کے معاملات بھی بہت زیادہ سامنے آئے ہیں۔ یہ بھی بڑا خطرناک ہوتا ہے۔ اس میں بہت زیادہ زخم ہوجاتا ہے۔ اگر صحیح وقت پر اگر اس کی علامات کی پہچان کر کے علاج شروع کیا جائے تو اس کا علاج انتہائی آسان اور سادہ بن جاتا ہے. کینسر کا سب سے زیادہ خطرہ ان نوجوانوں کو رہتا ہے جو آج کل کی بھاگ دوڑ بھری زندگی میں خود کو کشیدگی بچانے کے لئے سگریٹ نوشی کا سہارا لیتے ہیں.دنیا کو کینسر کے مہلک مرض سے نجات دلانے کے لیے ہم سب کو قدم بڑھانے کی ضرورت ہے۔ ہمیں چاہئے کہ ہم اپنے آپ کو تمباکو نوشی سے بچانے ساتھ اپنے رشتہ داروں اور ملنے جلنے والوں کو تمباکو، سگریٹ، شراب اور دیگر منشیات سے بچنے کی تلقین کریں۔
کینسر کیا ہوتا ہے
جسم کے خلیات کے گروپ کی غیر بے قابو  اضافہ کینسر ہے. جب یہ خلیے ٹشو کو متاثر کرتے ہیں تو کینسر جسم کے دوسرے حصوں میں پھیل جاتا ہے. کینسر کسی بھی عمر میں ہو سکتا ہے. لیکن اگر کینسر کا صحیح وقت پر پتہ نہ لگایا گیا اور اس کا علاج نہیں کیا گیا تو اس سے موت کا خطرہ بڑھ جاتا ہے. کینسر کی کئی قسمیں ہیں۔ سو سے زیادہ شکلیں اس کی اب تک سامنے آچکی ہیں۔ جیسے- پستان  کینسر، سروائكل کینسر، دماغ میں کینسر، بون کینسر، مثانے میں کینسر، پینكرياز  میں کینسر، پروسٹیٹ کینسر، بچہ دانی میں کینسر، گردے میں کینسر، پھیپھڑوں میں کینسر، جلد میں کینسر، پیٹ میں کینسر، تھائرائڈ کینسر، منہ کا کینسر، گلے کا کینسر وغیرہ.
کینسر کی وجوہات:
کینسر کئی طرح کا ہوتا ہے اور ہر کینسر کے ہونے کے الگ الگ وجوہات ہیں. لیکن کچھ اہم اسباب ایسے بھی ہیں جن سے کینسر ہونے کا خطرہ کسی کو بھی ہو سکتا ہے جیسے:
وزن بڑھنا یا موٹاپا.
زیادہ جسمانی سرگرمی نہ ہو.
الکوہل  اور منشیات کا زیادہ مقدار میں استعمال کرنا.
کینسر میں متناسب غذا نہ لینا.
اپنے  معمول میں ورزش کو شامل نہ کرنا.
کینسر کے دیگر اسباب:
کینسر جینیاتی بھی ہو سکتا ہے. کئی مرتبہ کینسر سے متاثر ماں یا باپ کے جین بچے میں بھی آ جاتے ہیں جس سے بچے کو مستقبل میں کینسر ہونے کا خدشہ رہتاہے.
کسی سنگین بیماری کی وجہ سے بھی آپ کو کینسر ہو سکتا ہے. یعنی اگر آپ کسی سنگین بیماری کے لئے ادویات لے رہے ہیں تو ان ادویات کے ضمنی اثرات کی وجہ سے آپ کینسر کے شکار ہو سکتے ہیں.
کئی بار عمر کے بڑھنے کے ساتھ بھی جسم میں چستی پھرتی نہیں رہتی اور عمر کے ایک پڑاؤ پر انسان بیمار پڑنے لگتا ہے، ایسے میں بھی کینسرے ہونے کے واقعات سامنے آئے ہیں۔
کچھ اہم کینسر
ملک میں سب سے زیادہ کینسر سے موت کے واقعات کینسر کے ان واقعات میں سامنے آئے ہیں:
خواتین میں بریسٹ کینسر، رحم (بچہ دانی) کینسر اور سروائكل کینسر سے سب سے زیادہ اموات ہوتی ہیں۔
مردوں میں سب سے زیادہ موت پھسپھس(Pleura) پیٹ، جگر، كولیسٹرول اور برین کینسر سے ہوتی ہے.

کینسر سے مرنے والے میں خواتین کا فیصد مردوں سے زیادہ ہے.

محافظ ساحل ہند

محافظ ساحل ہند
(Indian Coast Guard, भारतीय तटरक्षक)
یکم فروری
ہندوستان میں  محافظ ساحل ہند  ہندوستان سمندروں کے مفادات کا تحفظ اور اس کے سمندری سرحدوں، اس سے متصل زون اور خصوصی معاشی زون کے ساتھ  سمندری قوانین کا نفاذ کرتا ہے۔
محافظ ساحل  ہند کا قیام ہندوستان کے سمندروں کے تحفظ کے مقصد سے ۱۸؍ اگست ۱۹۷۸ کو یونین کے ایک آزاد مسلح فوج کی شکل میں پارلیامنٹ کے ذریعہ محافظ ساحل ایک ۱۹۷۸ کے تحت کی گئی۔ سنسکرت کا ایک جملہ वयम् रक्षाम: یعنی ہم حفاظت کرتے ہیں اس کا ماڈل جملہ ہے۔ محافظ ساحل انڈین نیوی، محکمہ ماہیات (Dept. of Fisheries)اور محکمہ آمدنی(Dept. of Revenue)  (کسٹمز)اور مرکزی اور ریاستی پولیس فورس کے خصوصی تعاون کے ساتھ چلتا ہے۔
بھارت میں محافظ ساحل (کوسٹ گارڈ )ٍکی تشکیل سمندر میں ہندوستان کے قومی دائرہ کار کے اندر قومی قوانین کو نافذ  کرنے اور زندگی اور املاک کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لئے ایک نئی سروس کے طور پر 01 فروری 1977 کو ہوئی تھی. اس بات کی ضرورت محسوس کی گئی کہ بحری افواج  کو اس  کے جنگی زمانے کے کاموں کے لئے علاحدہ رکھا جانا چاہئے اور  قوانین کے نفاذ کی ذمہ داری کے لئے ایک مختلف سروس کا قیام کیا جائے، جوکہ مکمل اور ترقی یافتہ ممالک جیسے امریکہ اور متحدہ ریاستوں کے محافظین ساحل کی طرز پر بنائی گئی ہو۔
اس منصوبے کو عملی شکل دینے کے لیے ستمبر ۱۹۷۴ میں ایف رستم جی کی صدارت میں سمندر میں اسمگلنگ کے مسائل سے نبرد آزما ہونے اور محافظ ساحل جیسی تنظیم کے قیام پر غور و خوض کرنے کے لیے ایک کمیٹی کی تشکیل کی گئی۔ اس کمیٹی نے ایک ایسی محافظ ساحل سروس کی سفارش کی جو وزارت دفاع کے انتظامی کنٹرول میں بحری افواج کی طرز پر کام کرے اور پر امن حالات میں ہمارے سمندروں کا تحفظ کرے۔ ۲۵ اگست ۱۹۷۶ کو ہندوستان کا بحری علاقہ ایکٹ Maritime Zones Actمنظور ہوا۔ ایک ایکٹ کے تحت ہندوستان نے 2.01 لاکھ مربع کیلو میٹر سمندری علاقے کا دعوی کیا جس میں ہندوستان کو زندہ اور مردہ دونوں وسائل کی تفتیش اور استحصال کا خصوصی حق مل گیا۔ اس کے بعد کابینہ کی طرف سے 01 فروری 1977 سے ایک عبوری محافظ ساحل تنظیم کے قیام کا فیصلہ کیا گیا. 18 اگست 1978 کو یونین کی ایک آزاد مسلح فوج کے طور پر ہندوستانی پارلیمنٹ کے ذریعہ سے محافظ ساحل ایکٹ، 1978 کے تحت محافظ ساحل ہند (انڈین کوسٹ گارڈ)  کا باقاعدہ طور پر افتتاح کیا گیا۔ یہ دن اسی کی یاد گار ہے۔
مقاصد:
محافظ ساحل ہند  کے درج ذیل مقاصد ہیں:
ہمارے سمندر اور تیل، ماہیات (مچھلی) اور معدنیات (Minerals) سمیت غیر ملکی اثاثوں کا تحفظ: شورش زدہ ملاحوں کی مدد اور سمندر میں جان مال کی حفاظت: سمندر، نقل و حمل، غیر مختار مچھلی کا  شکار، اسمگلنگ اور منشیات سے متعلق سمندری قوانین کا نفاذ: سمندری ماحول اور ماحولیات کو تحفظ فراہم کرنا اور معدوم ونایاب چرند وپرند کا تحفظ، سائنسی اعداد وشمار کو جمع کرنا اور جنگ کے دوران بحری افوان کی مدد سمیت ہمارے سمندر اور ساحلی اثاثہ جات کا تحفظ وغیرہ محافظ سال ہند (انڈین کوسٹ گارڈ) کا بنیادی مقصد ہے۔
فرائض اور خدمات:
محافظ ساحل ہندی (انڈین کوسٹ گارڈ) ہندوستان کے سمندری علاقوں میں جاری تمام قومی قوانین  کی دفعات کا نفاذ کرنے کے لئے اہم ادارہ ہے، جو قوم اور سمندری کمیونٹی کو درج ذیل خدمات فراہم کرتا ہے۔
ہمارے سمندری علاقوں میں مصنوعی جزائر، ساحلی اثاثہ جانت  اور دیگر ڈھانچوں کے تحفظ اور سرپرستی کو یقینی بنانا۔
ملاحوں  کی حفاظت اور سمندر میں مصیبت کے وقت ان کی امداد
سمندری آلودگی کا تصفیہ اور کنٹرول سمیت سمندری ماحولیات کی سرپرستی اور تحفظ۔
اینٹی اسمگلنگ مہمات میں محکمہ آمدنی (کسٹمس) اور دیگر حکام کا تعاون،
بھارتی سمندری وانین کا نفاذ۔
سمندر میں جان و مال کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لئے ضروری اقدامات۔
تنظیم:
محافظ ساحل ہند (انڈین کوسٹ گارڈ) کا  ہیڈ کوارٹر نئی دہلی میں واقع ہے. اس کو پانچ علاقوں میں تقسیم کیا گیا ہے:
مغربی علاقے - علاقائی ہیڈ کوارٹر: ممبئی
مشرقی علاقے - علاقائی ہیڈ کوارٹر: چنئی
شمال مشرقی علاقے - علاقائی ہیڈ کوارٹر: کولکاتا
انڈمان و نکوبار علاقے - علاقائی ہیڈ کوارٹر: پورٹ بلیئر

شمال مغربی علاقے - علاقائی ہیڈ کوارٹر: گاندھی نگر، (گجرات)

Monday 30 January 2017

عالمی یوم جھیل

جھیلوں کا عالمی دن
(World wetlands Day)
۲ فروری
ہر سال ۲ فروری کو عالمی یوم جھیل منعقد کیا جاتا ہے۔ یہ دن ۲ فروری ۱۹۷۱ میں جھیل کے موضوع پر ہونے والے کنونشن کی یادگار ہے۔ اس دن کے منانے کا مقصد انسانوں اور درختوں کے لیے جھیل کی اہمیت سے لوگوں کو واقف کرانا اور ان کے تئیں ان میں بیداری لانا ہے۔ عالمی یوم جھیل پہلی مرتبہ ۱۹۹۷ میں منایا گیا تھا اور اس کے بعد سے مستقل منایا جاتا ہے۔
جھیل:  
جھیل پانی کا وہ ٹھہرا ہوا حصہ ہے جو چاروں طرف سے زمین سے گھرا ہوتا ہے. عام طور پر جھیل سطح زمین کے وہ وسیع گڑھے ہیں جن میں پانی بھرا ہوتا ہے. جھیلوں کا پانی اکثر ٹھہرا ہوا ہوتا ہے. جھیلوں کی ایک اہم خصوصیت ان کا کھارا پن ہے لیکن کئی جھیلوں کا پانی میٹھا بھی ہے۔
اندرون ملک  تالاب میں پائے جانے والے ٹھہرے ہوئے آبی سلسلے کو جھیل کہتے ہیں جس کا سمندر سے کسی قسم کا تعلق نہیں رہتا. کبھی کبھی اس لفظ کا استعمال دریاؤں کے وسیع و عریض حصے کے لئے اور سمندر کنارے کے اس سلسلہ آب کے لئے بھی کیا جاتا ہے جن کا سمندر سے بالواسطہ تعلق رہتا ہے. اس کی تفصیل میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ چھوٹے چھوٹے تالاب اور سروور سے لے کر میٹھے پاني والے وسیع بڑا سوپیریئر جھیل اور کھارے پانی والے کیسپین ساگر  تک کو بھی جھیل کے ہی کا نام دیا گیا ہے۔ بیشتر جھیلیں سطح سمندر سے اوپر پہاڑی علاقوں میں پائے جاتے ہیں جاتی ہیں جن میں بحیرہ مردار(Dead sea)،  جو سطح سمندر سے نیچے واقع ہے مستثنٰی  ہے. میدانی حصوں میں عام طور پر جھیلیں ان دریاؤں کے قریب پائی جاتی ہیں جن کی ڈھلان کم ہو گئی ہو. جھیلیں میٹھے اور کھارے پاني والے دونوں ہوتی ہیں. جھیلوں کا پانی بنیادی طور بارش،برف کے پگھلنے،یا آبشاروں اور دریاؤں سے حاصل ہوتا ہے.جھیلیں بنتی ہیں، وسیع ہوتی ہیں، آہستہ آہستہ تلچھٹ سے بھر کر دلدل میں بدل جاتی ہیں اور اضافہ  هونے پر نزدیکی سطح زمین کے برابر ہو جاتی ہیں. ایسا خدشہ ہے کہ امریکہ کی برهت جھیلیں 4500 سالوں میں ختم ہو جائیں گی. کرہ زمین پر زیادہ تر جھیلیں شمالی نصف کرے میں واقع ہیں. فن لینڈ میں تو اتنی زیادہ جھیلیں ہیں کہ اسے جھیلوں کا ملک ہی کہا جاتا ہے. یہاں پر 187888 جھیلوں ہیں جس سے 60000 جھیلیں انتہائی بڑی ہیں. زمین پر کئی جھیلیں مصنوعی ہیں جنہیں انسان نے بجلی کی پیداوار، زرعی کاموں اور اپنی ضرورتوں کی تکمیل کے لئے بنایا ہے .جھیلیں انسانی زندگی کے لیے نہایت  مفید و کارآمد ہیں. مقامی آب و ہوا کو سہانا بنا دیتی ہیں. یہ پانی کے زوروں کو روک لیتی ہیں، جن سے سیلاب کا امکان کم ہوجاتا۔ جھیلوں سے مچھلیاں بھی حاصل ہوتی ہیں.
عالمی یوم جھیل کا موضوع:
ہر سال جھیلوں کی قدر وقیمت کے تئیں عوامی بیداری اور ان توجہ مبذول کرانے کے لیے ایک موضوع کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ مختلف ممالک میں عوامی بیداری کے لیے کئی طرح کے پروگرام جیسے لیکچر، سیمینار،فطری پیدل مارچ (nature walk)بچوں کے آرٹ کا مقابلہ، سمپان دوڑ، صفائی، ریڈیو اور ٹیلیویژن انٹرویو، اخبارات میں مراسلے، جھیلوں کی نئی پالیسی کا اجرا اور نئی جھیلیں اور نئے پروگرام وغیرہ قومی سطح پر منعقد کئے جاتے ہیں۔
سال
موضوعات
2016
جھیل ہمارے مستقبل کے لیے : پائدار ذریعہ معاش
2015
جھیل ہمارے مستقبل کے لیے:
2014
جھیل اور زراعت: ترقی کے ساجھے دار
2013
جھیل پانی کی دیکھ بھال
2012
جھیل سیاحت: ایک عظیم تجربہ
2011
جنگل پانی اور جھیلوں کے لیے
2010
جھیلوں کی نگہبانی: ماحولیاتی تبدیلی کا ایک جواب
2009
 اوپر نیچے: جھیلیں ہمیں ہر جگہ جوڑتی ہیں
2008
توانا جھیل، توانا انسان
2007
کل کے لیے مچھلی
2006
پر خطر ذریعہ معاش
2005
جھیلوں کے تنوع میں دولت ہے، اسے کھونا نہیں۔
2004
پہاڑوں سے سمندر میں: جھیل ہماری خدمت میں
2003
جھیل نہیں تو پانی نہیں
2002
جھیل: آب حیات اور ثقافت
2001
جھیلوں کی دنیا: ایک دریافت کی دنیا
2000
 بین الاقوامی اہمیت کا حامل ہماری جھیلوں کا جشن
1999
جھیل اور لوگ: اہم رابطہ
1998
زندگی کے لیے پانی کی اہمیت اور پانی کے سپلائی میں جھیلوں کا کردار
1997
پہلا عالمی یوم جھیل
دنیا کی چند مشہور جھیلوں سے متعلق معلومات:
دنیا کی سب سے بڑی جھیل کیسپین ساگر ہے جس کا پا نی کھارا ہے۔یہ رقبہ اور حجم کی بنیاد پر بھی سب سے بڑی جھیل ہے۔ یہ روس اور ایران کے درمیان ہے اور ایران کی سرحد کو چھوکر گذرتی ہے۔
  میٹھی پانی کی سب سے بڑی جھیل بحیرہ سپیریئر ہے
دنیا کی سب سے گہری جھیل بے كال جھیل ہے۔
دنیا کی سب سے کھارے پانی والی وان جھیل ہے جو ترکی میں واقع ہے۔
سب سے زیادہ اونچائی پر واقع ٹی ٹی كاكا جھیل ہے۔
بحیرہ عرب قزاقستان میں واقع ہے۔
وکٹوریہ جھیل مشرقی افریقہ میں ہے جو افریقہ بر اعظم کی سب سے بڑی جھیل ہے۔ 
فن لینڈکو ہزار جھیلوں کی زمین کہا جاتا ہے-
نیا سا جھیل افریقہ براعظم میں کون سی جھیل خط استوا پر واقع ہے-
ٹالے سیپ نامی جھیل کمبوڈیا میں واقع ہے-
ریاست ہائے متحدہ امریکہ'انگلي نما جھیلوں' کے لئے مشہور ہے۔
  بحیرہ مردار سمندر سے نیچی جھیل ہے۔
ٹی ٹی كاكا جھیل پیرو اور بولیویا کے درمیان واقع ہے۔
ایرا اور اونٹاریو جھیل کے درمیان  نیاگرا آبشار ہے-
لےڈوگا جھیل روس میں واقع ہے-
مشی گن جھیل امریکہ میں ہے۔
ونيپیگ جھیل کناڈا میں ہے۔

گریٹ سلیو جھیل کناڈا میں ہے۔ 

عالمی یوم انسداد جذام


عالمی یوم انسداد جذام
(World Leprosy Day)
۳۰ جنوری یا جنوری کا آخری اتوار
یوم انسداد جذا م ہر سال دنیا بھر میں ۳۰ جنوری یا جنوری کے آخری اتوار کو منایا جاتا ہے۔ اس کا مقصد جذام کے مرض ، جذام متاثر لوگوں کی امداد، اس مرض سے متاثر لوگوں کی دیکھ بھال کرنے والوں لوگوں کی تربیت کے تئیں عوامی بیداری لانا ہے۔
اس دن کو منانے کی شروعات فرانسیسی انسان دوست مصنف راؤل فولیرو نے۳۰ جنوری  ۱۹۵۴ میں کی تھی تاکہ اس قدیم اور طویل مدتی بیماری کے تئیں لوگوں کو بیدار کیا جاسکے اور لوگوں کی توجہ اس طرح مبذول کرائی جاسکے کہ اس بیماری کی تھام، علاج اور نجات ممکن ہے۔
اس دن کے لیے ۳۰ جنوری کا انتخاب مہاتما گاندھی کی برسی کی یادگار ہے ، ۳۰ جنوری ۱۹۴۸ کو ناتھو رام گوڈسے نامی تشدد پسند ہندو نے انہوں نے گولی مار کر قتل کردیا تھا، کیوکہ گاندھی جذام کی خرابی سے واقف تھے اور انہوں نے جذام کے مریضوں کی فلاح کے لیے کئی طرح کی کوششیں بھی کی تھیں۔
جذام:
جذام (کوڑھ ) یا ہینسن کا مرض ایک طویل مدتی مرض ہے جس کے اثر سے چمڑوں پر گہرے زخم ہوجاتے ہیں ۔مرض بڑھ جانے کے بعد ہاتھوں اور پیروں کی انگلیاں زخم خوردہ ہوکر سڑنے لگتے ہیں۔  ساتھ ہی ہاتھ اور پیروں کے اعصاب متاثر (سن) ہوجاتے ہیں۔اس بیماری کا سبب مائکو بیکٹریم لپیری نامی جراثیم ہے جس کی  دریافت ماہر اعصابیات (Norwegian Physian) ڈاکٹر گیر ہارڈ ہینرک آرمور ہینسن نے کی تھی۔ اس لیے اس بیماری کو  ہینسن کا مرض کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔
جذام انتہائی قدیم بیماری اور سماج کے لیے ایک کلنک کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس دن کا مقصد اس بیماری کے تئیں لوگوں کے رویہ کو بدلنا اور یہ احساس دلانا ہے کہ اس کی روک تھام اور علاج ممکن ہے۔
علامات:
عام چمڑے کے مقابلے میں جذام متاثر چمڑوں پر ہلکے لال گہرے یا ہلکے دھبے ہوسکتے ہیں۔
یہ دھبے سن ہوسکتے ہیں۔ کبھی کبھی متاثر چمڑے سے بال کے جھرنے کا مسئلہ بھی پیدا کرسکتے ہیں۔
ہاتھ، انگلیاں سن ہونے کی وجہ سے ان پر اعصاب فالج کا اثر ہوسکتا ہے۔
 پلکوں کے جھپک میں کمی، آنکھوں میں خشکی اور السر کے اثرات کے علاوہ بینائی جانے کا بھی خطرہ رہتا ہے۔
علاج:
عالمی ادارہ صحت کی سفارش کے مطابق اس کا سب سے مؤثر علاج ڈرگ تھراپی (ایم ڈی ٹی ہے۔ جب جذام کا مریض ابتدا میں ملٹی ڈرگ تھراپی کراتا ہے تو اس کا جراثیم بڑی تیزی سے ختم ہونے لگتا ہے اور اس طرح بیماری قابو میں آجاتی ہے۔
جذام کے مریض اپنا کام عام انسان کی طرح کرنے کے قابل ہوتے ہیں۔ جذام کا مرض چھونے سے متعددی نہیں ہوتا ہے۔ مائکو بیکٹریم لپری عام طور پر کھانسی اور چھینک کے ذریعہ پھیلتی ہے۔ جنسی رابطہ اور یا متاثر خاتون کے وضع حمل سے اس مرض کا اثر نہیں ہوتا ہے۔جذام کے مرض سے انسان کے اعضا کٹ کر گرنے بھی لگتے ہیں۔ یہ ضروری نہیں ہے کہ ہر مرض پر یہ اثر ہو ۔ اگر ابتدائی مرحلے میں ہی علاج شروع ہوجائے تو مریض کے چمڑوں میں چند دھبوں کے علاوہ اور کوئی اثر نہیں دکھائی دیتا ہے۔
سرگرمیاں:
اس دن بطور خاص دنیا بھر میں لوگ جذام کے مریضوں کا تعاون کرتے ہیں اور اس دن ان کی امداد کے لیے مالیات بھی اکٹھے کئے جاتے ہیں۔ڈاکٹر حضرات اس دن جذام کی بیماری پر گفتگو کرتے ہیں۔ ریلیاں نکالی جاتی ہیں وغیرہ


Saturday 28 January 2017

یوم جمہوریہ

یوم جمہوریہ
(Republic Day, गणतंत्र दिवस)
۲۶ جنوری
ہندوستان میں ۲۶ جنوری کو یوم جمہوریہ منایا جاتا ہے۔ ہمارا ملک ہندوستان ۱۵ اگست ۱۹۴۷ کو برطانوی سامراج سے آزاد ہوا۔ اس وقت تک ہمارے ملک میں   گورنمنٹ آف اندیا ایکٹ ۱۹۳۵ نافذ تھا۔ ۲۶ نومبر ۱۹۴۹ کو ملک کو آزاد جمہوریت بنانے اور ملک میں قانون کی حکومت قائم کرنے کے لیے انڈین گورنمنٹ ایکٹ کو منسوخ کر کے اپنا آئین  اختیار کیاگیا اور ۲۶ جنوری ۱۹۵۰ کو اس کو  پورے ملک میں نافذ کیا گیا اور اس طرح ہمارا ملک ایک سچے جمہوری ملک کے صف میں شامل ہوگیا۔ یہ دن اسی کی یادگار ہے۔
تاریخ
دسمبر ۱۹۲۹ میں لاہور میں کانگریس کا ایک اجلاس پنڈت جواہر لال نہرو کی صدارت میں منعقد ہوا تھا جس میں ایک تجویز پاس کرتے ہوئے یہ اعلان کیا گیا کہ اگر برطانوی حکومت ۲۶ جنوری ۱۹۳۰ تک ہندوستان کو ریاست (Dominion) کا درجہ نہیں دیتی ہے، جس کے تحت ہندوستان برطانوی سامراج میں ہی خود مختار اکائی بن جاتا، تو ہندوستان خود کو مکمل آزاد (پورن سوراج) اعلان کردے گا۔ برطانوی حکومت نے متعینہ تاریخ تک کچھ نہیں کیا تو کانگریس نے ۲۶ جنوری ۱۹۳۰ کو مکمل آزادی کے فیصلے کا اعلان کرتے ہوئے فعال تحریک شروع کردی۔ اس دن سے ۱۹۴۷ میں ملک آزادی ہونے تک ۲۶ جنوری یوم آزادی کی شکل میں منایا جاتا رہا تھا۔ اس کے بعد آزادی کے حصول کے حقیقی دن ۱۵ اگست کو یوم آزادی قرار دیا گیا۔آزادی کے بعد ۲۸؍ اگست ۱۹۴۷کو مستقل طور پر آئین سازی کے لیے ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر کی صدارت میں ایک کمیٹی تشکیل دی گئی ۔ کمیٹی نے پہلا مسودہ ۴؍ نومبر ۱۹۴۷ کو پیش  قانون ساز اسمبلی کے سامنے پیش کیا۔ اسمبلی نے ۲؍ سال ۱۱؍ مہینے اور ۱۸؍ دن کی مدت میں مختلف مجالس میں عوام کے درمیان ۱۶۶ دنوں تک پیش کیا۔ کئی طرح کے مشوروں اور ترمیمات کے بعد ۳۰۸ آئین ساز اسمبلی کے ممبران نے ۲۴ جنوری ۱۹۵۰ کو دستاویز کی ذو لسانی (انگریزی اور ہندی) کاپیوں پر دستخط کیا۔ دو دنوں بعد ۲۶ جنوری کو یہ پورے ملک پر نافذ ہوگیا۔


سرگرمیاں:
یوم جمہوریہ کی سب سے بڑی تقریب ملک کی راجدھانی دہلی میں صدر جمہوریہ کی موجودگی میں راج پتھ میں منعقد ہوتی ہے جس میں صدر جمہوریہ ہندوستانی جھنڈے کی پرچم کشائی کرتے ہیں اور تقریب موجود تمام لوگوں کی طرف سے جھنڈے کو سلامی دی جاتی ہے۔  اس دن راج پتھ میں مختلف طرح کے پریڈ   کے ذریعہ ہندوستان کی کثرت میں وحدت اور مستحکم تہذیبی ثقافت کو خراج تحسین پیش کی جاتی ہے۔
یہ ہندوستان کا قومی تیوہار ہے اس لیے دہلی کے ساتھ ساتھ ملک کی تمام تر ریاستوں کی راجدھانیوں، متعلقہ اضلاع کے ہیڈ کوارٹر کے علاوہ تمام سرکاری وغیر سرکاری اداروں اور محکموں میں بھی پرچم کشائی کی جاتی ہے اور قومی پرچم کو سلامی دی جاتی ہے۔لوگ اس دن کو خاص اہتمام کے ساتھ مناتے ہوئے ملک کی جمہوریت کو باقی رکھنے عزم کیا جاتا ہے۔ اس دن کو تعلیمی اداروں میں انتہائی تزک و احتشام کے ساتھ منایا جاتا ہے جس میں بچوں کی جانب سے مختلف طرح کے ثقافتی پروگراموں کا بھی انعقاد کیا جاتا ہے۔

اس دن کی تقریب کی ایک اور خصوصیت یہ ہے کہ ۱۹۵۰ سے ہی کسی  دوسرے ملک کے سربراہ نئی دہلی کی تقریب میں مہمان کی حیثیت سے شرکت کرتے ہیں۔
سال  
مہمان
ملک
۱۹۵۰
صدر سکارنو
انڈونیشیا
۱۹۵۱
راجا تری بھون بیر بکرم شاہ
نیپال
۱۹۵۲


۱۹۵۳


۱۹۵۴
بادشاہ جگمے دور جی وانگ چک
بھوٹان
۱۹۵۵
گورنر جنرل ملک غلام محمد
پاکستان
۱۹۵۶


۱۹۵۷


۱۹۵۸
مارشل یے جیان ینگ
چین
۱۹۵۹


۱۹۶۰
چیرمین کلیمنٹ وورو شیلوو
سویت یونین
۱۹۶۱
ملکہ الزبتھ
برطانیہ
۱۹۶۲


۱۹۶۳
راجا نوروم سیہانوک
کمبوڈیا
۱۹۶۴


۱۹۶۵
وزیر خوراک و زراعت رانا عبد الحمید
پاکستان
۱۹۶۶


۱۹۶۷


۱۹۶۸
چیرمین الیکزی کوسیجن
سویت یونین
صدر جوسپ بروز ٹیٹو
یوگو سلاویہ
۱۹۶۹
وزیر اعظم ٹو ڈر زیوکوو
بلگاریہ
۱۹۷۰


۱۹۷۱
صدر، جولیس نائریر
تنزانیہ
۱۹۷۲
وزیر اعظم سی ووساگر رام گولام
ماریشش
۱۹۷۳
صدر، موبوٹو سے سے سیکو
زائر
۱۹۷۴
صدر جوسپ بروز ٹیٹو
یوگو سلاویہ

وزیر اعظم سری ماوو بندرا نائک
شری لنکا
۱۹۷۵
صدر کین نتھ کونڈا
زمبیا
۱۹۷۶
وزیر اعظم جیکوئیس شیراک
فرانس
۱۹۷۷
فرسٹ سکریٹری، ایڈورد گیرگ
پولینڈ
۱۹۷۸
صدر، پیٹرک ہیلری
آئیر لینڈ
۱۹۷۹
وزیر اعظم مالکوم فریزر
اسٹریلیا
۱۹۸۰
صدر، ویلری گیسکارڈ ڈی اسٹینگ
فرانس
۱۹۸۱
صدر، ویلری لوپز پورٹیلو
میکسیگو
۱۹۸۲
کنگ جان کارلس
اسپین
۱۹۸۳
صدر، شیہو شگاری
نائجیریا
۱۹۸۴
کنگ جگمے سنگے وانگ چک
بھوٹان
۱۹۸۵
صدر، الفونسن
ارجنٹینا
۱۹۸۶
وزیر اعظم، انڈریس پپنڈریو
جرمن
۱۹۸۷
صدر الان گریسا
پیرو
۱۹۸۸
صدر، جے آر جے وارڈنس
شری لنکا
۱۹۸۹
جنرل سکریٹری نگویین وان لین
ویتنام
۱۹۹۰
وزیر اعظم انیرود جگ ناتھ
ماریشش
۱۹۹۱
صدر مامون عبد القیوم
مالدیپ
۱۹۹۲
صدر، ماریو سورس
پرتگال
۱۹۹۳
وزیر اعظم جان میجر
برطانیہ
۱۹۹۴
وزیر اعظم گوہ چوک تونگ
سنگا پور
۱۹۹۵
صدر ، نیلسن مندیلا
جنوبی افریقہ
۱۹۹۶
صدر فرنانڈو ہینریک
برازیل
۱۹۹۷
وزیر اعظم، باسدیو پانڈے
ترینی داد ایند توباگو
۱۹۹۸
صدر، جیکوئیس شیراک
فرانس
۱۹۹۹
راجا بیر بکرم دیو
نیپال
۲۰۰۰
صدر، الوسگن اوباسنجو
نائجیریا
۲۰۰۱
صدر، عبد العزیز باؤت فیلکا
الجیریا
۲۰۰۲
صدر، کس سام اوتیم
ماریشش
۲۰۰۳
صدر، محمد ختامی
ایران
۲۰۰۴
صدر، لوئیس اینیسیو لولا دا سیلوا
برازیل
۲۰۰۵
راجا جگ مے سنگیے وانگ چک
بھوٹان
۲۰۰۶
ملک عبد اللہ بن عبد العزیز السعود
سعودی عربیہ
۲۰۰۷
صدر ولادیمور پوتن
روس
۲۰۰۹
صدر ، نور السلطان نذر بے
قزاقستان
۲۰۱۰
صدر، لی میونگ بیک
جنوبی افریقہ
۲۰۱۱
صدر، سوسیلو بمبانگ یوہویونو
انڈونیشیا
۲۰۱۲
وزیر اعظم، ینگ لک شنواترا
تھائی لینڈ
۲۰۱۳
راجا جگ مے کھیسر نام گیل وانگ چک
بھوٹال
۲۰۱۴
وزیر اعظم، شنزو آبے
جاپان
۲۰۱۵
صدر، براک حسین اوبامہ
امریکہ
۲۰۱۶
وزیر اعظم، فرینکویس ہالینڈے
فرانس
۲۰۱۷
شہزادہ محمد بن زیاد النہیان
متحدہ عرب امارات