Thursday 22 December 2016

National Mathematocs Day

قومی یوم ریاضی

۲۲؍ دسمبر

ہندوستان میں ۲۲؍ دسمبر کو قومی یوم ریاضی قرار دیا گیا ہے۔یہ ہندوستان کے ماہر ریاضیات سری نواس راما نوجن کا یوم پیدائش ہے۔ ڈاکٹر منموہن سنگھ نے اپنی وزارت عظمی کے دور میں سری رامانوجن کی ۱۲۵ ویں یوم پیدائش تقریب کے موقع پر افتتاحی تقریب میں مدراس یونیورسٹی کے سینٹنری آڈیٹوریم میں منعقد ۲۶ فروری کو ۲۰۱۲ کو اس کا اعلان کیا گیا تھا۔ انہوں نے یہ بھی اعلان کیا تھا کہ ۲۰۱۲ کو  قومی سال ریاضی کے طور پر منایا جائے گا۔

اس موقع پر ہندوستان اور یونیسکو نے پوری دنیا کے طلبہ کے لیے علوم ریاضیات کو عام کرنے اور اس کو فروغ دینے کے لیے مشترکہ لائحہ عمل طے کرنے پر رضامند ی دی۔

ماہر ریاضیات سری نواس راما نوجن ۲۲؍ دسمبر ۱۸۸۷ کو پیدا ہوائے اور ۲۶؍ اپریل ۱۹۲۰ کو ان کا انتقال ہوا۔ ریاضیات کے میدان میں ان کی خدمات کا اعتراف کرنے کے لیے حکومت ہند نے ان کے یوم پیدائش کو ہر سال قومی یوم ریاضی اور ۲۰۱۲ کو سال ریاضی کے طور پر منانے کا اعلان کیا۔

عدیم المثال اور خود مطالعہ ماہر ریاضیات راما نوجن نے نطریہ اعداد number theory کو دریافت کیا ریاضیاتی تجزیے mathematical analysis غیر معینہ تسلسل infinite series اور کسر مسلسل continued fraction میں اپنی غیر معمولی خدمات پیش کیں۔ وہ علوم ریاضی سے اتنی محبت کرتے تھے کہ اسکول کے بیشتر مضامین میں ناکام ہوگئے۔

گرچہ ان کی زندگی بڑی مختصر رہی تاہم انہوں نے اپنی مختصر زندگی میں ۳۹۰۰ ریاضیات کے نتائج، اکویشن کے ساتھ اپنی ان دریافتوں کو بھی جمع کیا جو راما نوجن پرائم اور راما نوجن تھیٹا کے نام سے مشہور ہوئیں اور اس  مضمون کی تحقیقات کو فروغ دیا۔

Saturday 17 December 2016

Rights of Minority Days

حقوق اقلیات کا عالمی دن
عالمی یوم حقوق اقلیات
۱۸؍ دسمبر
۱۸؍ دسمبر کو ہر دن ساری دنیا میں اقلیتوں کے حقوق کا دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ یہ دن ہمیں اقلیتوں حقوق کی یاد دہانی کراتا ہے۔ ہر ملک میں مختلف نسلی، لسانی اور مذہبی اقلیتیں پائی جاتی ہیں۔ ہر ریاست کی یہ ذمہ داری ہے کہ تمام اقلیات کو ان کی آبادی اور مذہب کے لحاظ سے وہ تمام حقوق فراہم کرائے جو ملک کے دیگر اکثریتی طبقے کو حاصل ہے۔ اقلیتوں کو مساوی حقوق فراہم کرانا سچی جمہوریت کی پہچان ہے۔ دنیا بھر میں ایسے واقعات پیش آتے رہتے ہیں جن کسی خاص اقلیتی طبقے کو مختلف طرح کے امتیازات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایسی صورتحال سے نبرد آزما ہونے اور اقلیتوں کے خلاف امتیازات کے واقعات کو روکنے کے لیے اقوام متحدہ نے ۱۸ دسمبر ۱۹۹۲ کو قومی، نسلی اور  مذہبی اقلیتوں  سے وابستہ افراد کے حقوق کا اعلامیہ جاری کیا ۔
اقوام متحدہ نے وضاحت کی کہ:
ریاست اپنے تمام خطے میں اقلیتوں کے قومی، نسلی، ثقافتی، مذہبی اور لسانی شناخت کا تحفظ کرے گی اور ان کی شناخت کو باقی رکھنے کے لیے تمام امکانات کو فروغ دےگی۔
یہ وضاحت ساری دنیا میں اقلیتوں کے تحفظ کے ضمن میں بڑا اقدام تھا۔  ہندوستان کے لیے بھی یہ بڑا اہم دن ہے ۔ کیونکہ ہندوستان میں بھی کئی طرح کی اقلیتیں ہمیشہ سے رہتی آئی ہیں۔ اس دن اقلیتوں اور ان کے مسائل پر بحث و مباحثہ اور ان کے حل کے لیے غور و فکر کرنے  کا ایک موقع سامنے آتا ہے۔ حالانکہ ہندوستان نے  اپنے دستور میں اقلیتوں کے تمام حقوق مساوی طور پر فراہم کئے ہیں اور ان کی شناخت اور ثقافت کو ترقی دینے کی ذمہ داری  ریاست کو دی ہے۔ اس  کے باوجود مختلف سطح پر اقلیتوں کے حقوق کی پامالی کے واقعات آزادی کے بعد سے تاحال پیش آتے رہے ہیں۔ ان حالات کو دیکھتے ہوئے اقلیتوں کے مسائل کے حل کے لیے جہاں قومی سطح پر قومی اقلیتی کمیشن قائم کیا گیا ہے وہیں ریاستی سطح پر ریاستی اقلیتی کمیشن کی تشکیل کی گئی ہے۔ اقلیتوں کے فروغ کے لیے حکومت کی جانب سے کئی طرح کے مراعات  اور اسکیمیں بھی چلائی گئی ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس دن ہم اقلیتوں کے حاصل حقوق کے سلسلے میں عوام کو بیدار کریں ساتھ ہی ان کو مرکزی اور ریاستی سطح  پر جو مراعات حاصل ہیں اور ان کے لیے جو اسکیمیں چلائی گئی ہیں ان سے واقف کراتے ہوئے ان اسکیموں کا فائدہ اٹھانے کی ترغیب دلائی جائے۔ اسکیموں کا فائدہ حاصل کرنے میں جو زمینی مسائل ہیں ان کے حل پر غور وفکر اور عملی اقدام بھی کیا جائے ۔
آئین ہند میں اقلیتوں کے حقوق:
آئین ہند نے بنیادی حقوق بنائے ہیں جو  ہندوستان کے  ہر فرد کو بلا امتیاز جنس، مذہب، نسل، ذات اور لسان حاصل ہے۔ یہ حقوق کسی بھی طرح سے چھینے نہیں جاسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہندوستان ایک سیکولر ملک ہے ۔ ریاست کا کوئی مذہب نہیں ہے اور نہ کسی اکثریت کے مذہب کو ریاست کا مذہب قرار دیا جاسکتا ہے۔ اس حیثیت سے ملک کا ہر فرد خواہ وہ اکثریتی طبقے سے تعلق رکھتا ہو یا اقلیتی طبقے سے ملک کا مساوی شہری ہے اور ایک شہری کی حیثیت سے اسے بھی وہ تمام حقوق حاصل ہیں جو کسی بھی شہری کو حاصل ہیں۔ مذہب  یا زبان یا دیگر کسی بھی بنیاد پر کوئی شہری دوسرے درجے کا نہیں بلکہ سب اول درجے کے شہری ہیں۔ ان کے علاوہ کچھ خصوصی آرٹیکل ہیں جن میں اقلیتوں کے حقوق کی حفاظت کی ضمانت دی گئی ہے۔ مثلا
آرٹیکل ۲۹
دستور نے آرٹیکل ۲۹ میں مذہبی اور لسانی اقلیات کو یہ حق دیا ہے کہ وہ اپنا تعلیمی ادارہ قائم کرے اور اس کو چلائیں۔ یہاں اقلیتوں کو اپنی ثقافت کے مطابق چلنے اور اس کو فروغ دینے کی بھی ضمانت دی گئی ہے۔ ہندوستان مختلف تہذیبوں کا ملک ہے اور اس کثیر تہذیب کو باقی رکھا جانا بھی ضروری ہے۔ کیونکہ یہی ہندوستان کی شناخت ہے۔ ہندوستان میں ہندی دفتر ی زبان ہے لیکن اس کے باوجود تمام طبقات کو ان کی مادری زبان میں بنیادی تعلیم دینے کی ذمہ داری ریاست کی ہے۔ اس کے علاوہ یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ ہندوستان میں ۲۰؍ سے زائد دفتری زبانیں ہیں۔
آرٹیکل ۲۹؍ اس بات کی وضاحت کرتا ہے کہ نسل، مذہب، ذات، زبان کی بنیاد پر کوئی تفریق نہیں کی جاسکتی ہے اور ریاست کے ذریعہ چلائے جارہے  یار ریاست سے امداد پارہے تعلیمی اداروں  میں ان بنیادوں پر داخلہ سے منع نہیں کیا جاسکتا ہے ۔
آرٹیکل ۳۰
آرٹیکل ۳۰ اقلیتوں کے حقوق کا ایک بڑا آلہ ہے۔ اس آرٹیکل کی رو سے تمام اقلیتوں کو یہ حق دیا گیا ہے کہ وہ اپنی پسند کا تعلیمی ادارہ قائم کریں اور اس کا انتظام وانصرام اپنے ہاتھ میں رکھیں۔ سرکاری امداد حاصل کرنے کے سلسلے میں ایسے اداروں کے ساتھ سرکاری تفریق نہیں کرسکتی ہے۔
آرٹیکل ۱۶ اس بات کی ضمانت دیتی ہے کہ سرکاری ملازمت میں نسل، مذہب، زات اور زبان کی بنیاد پر کوئی تفریق نہیں کرسکتی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ہندوستان کا ہر شہری بلاامتیاز سرکاری دفاتر میں ملازمت کا مساوی حق رکھتا ہے۔
آرٹیکل ۲۵  ہر شخص کو مذہبی آزادی کا حق دیتا ہے۔ یہ آرٹیکل اس بات پر زور دیتا ہے کہ کسی اقلیتی طبقہ کا رکن وہ اپنے مذہب پر چلنے کا حق رکھتا ہے۔ ریاست صرف ان امور مذہبی امور سے باز رکھ سکتی ہے جب امن عامہ کو خطرہ ہو۔ اقلیتیں صرف اپنے مذہب پر چلنے کا ہی حق نہیں رکھتی ہیں بلکہ اس کو اس کی بلا جبر  وتشدد تبلیغ بھی کرسکتی ہیں۔ کیونکہ جبر وتشدد فرد کی آزادی کو چھیننے کا باعث ہیں۔
ہندوستان کی مذہبی اقلیات :
مرکزی حکومت نے ۲۰۰۶ میں وزارت برائے اقلیتی امور کی تشکیل کی جو ہندوستان کی مذہبی اقلیات کے لیے موجود پروگراموں کو فروغ دینے اور عمل میں لانے کا مرکزی حکومت کا ایک اعلی ادارہ ہے۔
قومی کمیشن برائے اقلیات ایکٹ ۱۹۹۲ کے گزٹ میں شق ۲ (ج) کے تحت مسلم، سکھ، عیسائی، بودھ، زرتشت (پارسی) اور جین کو مذہبی اقلیات میں شمار کیا گیا ہے۔
اقلیتوں کی آبادی کا تناسب:
۲۰۱۱ کی مردم شماری کے مطابق ہندوستان کی کل آبادی ۱۲۱ کروڑ ہے۔ ان میں ہندوؤں کی تعداد 79.8 فیصد، مسلم 14.2 فیصد، عیسائی 2.3 فیصد، سکھ 1.7 فیصد، بودھ 0.7 فیصد، جین 0.4 فیصد ہے۔
لسانی اقلیت:
لسانی اقلیت کی کوئی واضح تعریف نہیں کی گئی ہے۔ حتی کہ رنگناتھ مشرا کمیشن    کی رپورٹ جو ہندوستان کی مذہبی اور لسانی اقلیتوں کے حالات کے جائزے کے لیے تشکیل دی گئی تھی تو کوئی واضح تعریف نہیں ملتی ہے۔
اس کو اس طرح سمجھا جاسکتا ہے کہ ہر صوبہ ؍ ریاست میں ایک غالب زبان ہوتی ہے جس کو لوگوں کی اکثریت بولتی ہے۔ اسے مقامی زبان کہا جاتا ہے۔ وہ تمام لوگ جو مقامی زبان نہیں بولتے ہیں لسانی اقلیت سے تعلق رکھتے ہیں۔
لسانی اقلیت کئی طرح کے ہوسکتے ہیں:
مستقل طور پر : جیسے بیلگام  ضلع میں مراٹھی زبان کے بولنے والے اور آسام میں بنگالی زبان کے بولنے والے۔
غیر مستقل:
جیسے اڑیا زبان بولنے والوں کو روزگار کے لیے گجرات  میں رہنا، بہاریوں کا پنجاب میں تامل کو دہلی میں رہنا۔
قانونی واساسی ادارے:
سنٹرل وقف کونسل (Central Wakf Council)
قومی اقلیتی کمیشن (National Commission for Minorities)
کمشنر برائے لسانی اقلیات ( Commissioner for Linquistic Minorities)
خود مختار ادارہ:
مولانا آزاد ایجوکیشن فاؤنڈیشن  (Mounala Azad Education FoundatioN)

قومی اقلیتی ترقیات و فنانس کارپوریشن