Thursday 22 December 2016

National Mathematocs Day

قومی یوم ریاضی

۲۲؍ دسمبر

ہندوستان میں ۲۲؍ دسمبر کو قومی یوم ریاضی قرار دیا گیا ہے۔یہ ہندوستان کے ماہر ریاضیات سری نواس راما نوجن کا یوم پیدائش ہے۔ ڈاکٹر منموہن سنگھ نے اپنی وزارت عظمی کے دور میں سری رامانوجن کی ۱۲۵ ویں یوم پیدائش تقریب کے موقع پر افتتاحی تقریب میں مدراس یونیورسٹی کے سینٹنری آڈیٹوریم میں منعقد ۲۶ فروری کو ۲۰۱۲ کو اس کا اعلان کیا گیا تھا۔ انہوں نے یہ بھی اعلان کیا تھا کہ ۲۰۱۲ کو  قومی سال ریاضی کے طور پر منایا جائے گا۔

اس موقع پر ہندوستان اور یونیسکو نے پوری دنیا کے طلبہ کے لیے علوم ریاضیات کو عام کرنے اور اس کو فروغ دینے کے لیے مشترکہ لائحہ عمل طے کرنے پر رضامند ی دی۔

ماہر ریاضیات سری نواس راما نوجن ۲۲؍ دسمبر ۱۸۸۷ کو پیدا ہوائے اور ۲۶؍ اپریل ۱۹۲۰ کو ان کا انتقال ہوا۔ ریاضیات کے میدان میں ان کی خدمات کا اعتراف کرنے کے لیے حکومت ہند نے ان کے یوم پیدائش کو ہر سال قومی یوم ریاضی اور ۲۰۱۲ کو سال ریاضی کے طور پر منانے کا اعلان کیا۔

عدیم المثال اور خود مطالعہ ماہر ریاضیات راما نوجن نے نطریہ اعداد number theory کو دریافت کیا ریاضیاتی تجزیے mathematical analysis غیر معینہ تسلسل infinite series اور کسر مسلسل continued fraction میں اپنی غیر معمولی خدمات پیش کیں۔ وہ علوم ریاضی سے اتنی محبت کرتے تھے کہ اسکول کے بیشتر مضامین میں ناکام ہوگئے۔

گرچہ ان کی زندگی بڑی مختصر رہی تاہم انہوں نے اپنی مختصر زندگی میں ۳۹۰۰ ریاضیات کے نتائج، اکویشن کے ساتھ اپنی ان دریافتوں کو بھی جمع کیا جو راما نوجن پرائم اور راما نوجن تھیٹا کے نام سے مشہور ہوئیں اور اس  مضمون کی تحقیقات کو فروغ دیا۔

Saturday 17 December 2016

Rights of Minority Days

حقوق اقلیات کا عالمی دن
عالمی یوم حقوق اقلیات
۱۸؍ دسمبر
۱۸؍ دسمبر کو ہر دن ساری دنیا میں اقلیتوں کے حقوق کا دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ یہ دن ہمیں اقلیتوں حقوق کی یاد دہانی کراتا ہے۔ ہر ملک میں مختلف نسلی، لسانی اور مذہبی اقلیتیں پائی جاتی ہیں۔ ہر ریاست کی یہ ذمہ داری ہے کہ تمام اقلیات کو ان کی آبادی اور مذہب کے لحاظ سے وہ تمام حقوق فراہم کرائے جو ملک کے دیگر اکثریتی طبقے کو حاصل ہے۔ اقلیتوں کو مساوی حقوق فراہم کرانا سچی جمہوریت کی پہچان ہے۔ دنیا بھر میں ایسے واقعات پیش آتے رہتے ہیں جن کسی خاص اقلیتی طبقے کو مختلف طرح کے امتیازات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایسی صورتحال سے نبرد آزما ہونے اور اقلیتوں کے خلاف امتیازات کے واقعات کو روکنے کے لیے اقوام متحدہ نے ۱۸ دسمبر ۱۹۹۲ کو قومی، نسلی اور  مذہبی اقلیتوں  سے وابستہ افراد کے حقوق کا اعلامیہ جاری کیا ۔
اقوام متحدہ نے وضاحت کی کہ:
ریاست اپنے تمام خطے میں اقلیتوں کے قومی، نسلی، ثقافتی، مذہبی اور لسانی شناخت کا تحفظ کرے گی اور ان کی شناخت کو باقی رکھنے کے لیے تمام امکانات کو فروغ دےگی۔
یہ وضاحت ساری دنیا میں اقلیتوں کے تحفظ کے ضمن میں بڑا اقدام تھا۔  ہندوستان کے لیے بھی یہ بڑا اہم دن ہے ۔ کیونکہ ہندوستان میں بھی کئی طرح کی اقلیتیں ہمیشہ سے رہتی آئی ہیں۔ اس دن اقلیتوں اور ان کے مسائل پر بحث و مباحثہ اور ان کے حل کے لیے غور و فکر کرنے  کا ایک موقع سامنے آتا ہے۔ حالانکہ ہندوستان نے  اپنے دستور میں اقلیتوں کے تمام حقوق مساوی طور پر فراہم کئے ہیں اور ان کی شناخت اور ثقافت کو ترقی دینے کی ذمہ داری  ریاست کو دی ہے۔ اس  کے باوجود مختلف سطح پر اقلیتوں کے حقوق کی پامالی کے واقعات آزادی کے بعد سے تاحال پیش آتے رہے ہیں۔ ان حالات کو دیکھتے ہوئے اقلیتوں کے مسائل کے حل کے لیے جہاں قومی سطح پر قومی اقلیتی کمیشن قائم کیا گیا ہے وہیں ریاستی سطح پر ریاستی اقلیتی کمیشن کی تشکیل کی گئی ہے۔ اقلیتوں کے فروغ کے لیے حکومت کی جانب سے کئی طرح کے مراعات  اور اسکیمیں بھی چلائی گئی ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس دن ہم اقلیتوں کے حاصل حقوق کے سلسلے میں عوام کو بیدار کریں ساتھ ہی ان کو مرکزی اور ریاستی سطح  پر جو مراعات حاصل ہیں اور ان کے لیے جو اسکیمیں چلائی گئی ہیں ان سے واقف کراتے ہوئے ان اسکیموں کا فائدہ اٹھانے کی ترغیب دلائی جائے۔ اسکیموں کا فائدہ حاصل کرنے میں جو زمینی مسائل ہیں ان کے حل پر غور وفکر اور عملی اقدام بھی کیا جائے ۔
آئین ہند میں اقلیتوں کے حقوق:
آئین ہند نے بنیادی حقوق بنائے ہیں جو  ہندوستان کے  ہر فرد کو بلا امتیاز جنس، مذہب، نسل، ذات اور لسان حاصل ہے۔ یہ حقوق کسی بھی طرح سے چھینے نہیں جاسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہندوستان ایک سیکولر ملک ہے ۔ ریاست کا کوئی مذہب نہیں ہے اور نہ کسی اکثریت کے مذہب کو ریاست کا مذہب قرار دیا جاسکتا ہے۔ اس حیثیت سے ملک کا ہر فرد خواہ وہ اکثریتی طبقے سے تعلق رکھتا ہو یا اقلیتی طبقے سے ملک کا مساوی شہری ہے اور ایک شہری کی حیثیت سے اسے بھی وہ تمام حقوق حاصل ہیں جو کسی بھی شہری کو حاصل ہیں۔ مذہب  یا زبان یا دیگر کسی بھی بنیاد پر کوئی شہری دوسرے درجے کا نہیں بلکہ سب اول درجے کے شہری ہیں۔ ان کے علاوہ کچھ خصوصی آرٹیکل ہیں جن میں اقلیتوں کے حقوق کی حفاظت کی ضمانت دی گئی ہے۔ مثلا
آرٹیکل ۲۹
دستور نے آرٹیکل ۲۹ میں مذہبی اور لسانی اقلیات کو یہ حق دیا ہے کہ وہ اپنا تعلیمی ادارہ قائم کرے اور اس کو چلائیں۔ یہاں اقلیتوں کو اپنی ثقافت کے مطابق چلنے اور اس کو فروغ دینے کی بھی ضمانت دی گئی ہے۔ ہندوستان مختلف تہذیبوں کا ملک ہے اور اس کثیر تہذیب کو باقی رکھا جانا بھی ضروری ہے۔ کیونکہ یہی ہندوستان کی شناخت ہے۔ ہندوستان میں ہندی دفتر ی زبان ہے لیکن اس کے باوجود تمام طبقات کو ان کی مادری زبان میں بنیادی تعلیم دینے کی ذمہ داری ریاست کی ہے۔ اس کے علاوہ یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ ہندوستان میں ۲۰؍ سے زائد دفتری زبانیں ہیں۔
آرٹیکل ۲۹؍ اس بات کی وضاحت کرتا ہے کہ نسل، مذہب، ذات، زبان کی بنیاد پر کوئی تفریق نہیں کی جاسکتی ہے اور ریاست کے ذریعہ چلائے جارہے  یار ریاست سے امداد پارہے تعلیمی اداروں  میں ان بنیادوں پر داخلہ سے منع نہیں کیا جاسکتا ہے ۔
آرٹیکل ۳۰
آرٹیکل ۳۰ اقلیتوں کے حقوق کا ایک بڑا آلہ ہے۔ اس آرٹیکل کی رو سے تمام اقلیتوں کو یہ حق دیا گیا ہے کہ وہ اپنی پسند کا تعلیمی ادارہ قائم کریں اور اس کا انتظام وانصرام اپنے ہاتھ میں رکھیں۔ سرکاری امداد حاصل کرنے کے سلسلے میں ایسے اداروں کے ساتھ سرکاری تفریق نہیں کرسکتی ہے۔
آرٹیکل ۱۶ اس بات کی ضمانت دیتی ہے کہ سرکاری ملازمت میں نسل، مذہب، زات اور زبان کی بنیاد پر کوئی تفریق نہیں کرسکتی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ہندوستان کا ہر شہری بلاامتیاز سرکاری دفاتر میں ملازمت کا مساوی حق رکھتا ہے۔
آرٹیکل ۲۵  ہر شخص کو مذہبی آزادی کا حق دیتا ہے۔ یہ آرٹیکل اس بات پر زور دیتا ہے کہ کسی اقلیتی طبقہ کا رکن وہ اپنے مذہب پر چلنے کا حق رکھتا ہے۔ ریاست صرف ان امور مذہبی امور سے باز رکھ سکتی ہے جب امن عامہ کو خطرہ ہو۔ اقلیتیں صرف اپنے مذہب پر چلنے کا ہی حق نہیں رکھتی ہیں بلکہ اس کو اس کی بلا جبر  وتشدد تبلیغ بھی کرسکتی ہیں۔ کیونکہ جبر وتشدد فرد کی آزادی کو چھیننے کا باعث ہیں۔
ہندوستان کی مذہبی اقلیات :
مرکزی حکومت نے ۲۰۰۶ میں وزارت برائے اقلیتی امور کی تشکیل کی جو ہندوستان کی مذہبی اقلیات کے لیے موجود پروگراموں کو فروغ دینے اور عمل میں لانے کا مرکزی حکومت کا ایک اعلی ادارہ ہے۔
قومی کمیشن برائے اقلیات ایکٹ ۱۹۹۲ کے گزٹ میں شق ۲ (ج) کے تحت مسلم، سکھ، عیسائی، بودھ، زرتشت (پارسی) اور جین کو مذہبی اقلیات میں شمار کیا گیا ہے۔
اقلیتوں کی آبادی کا تناسب:
۲۰۱۱ کی مردم شماری کے مطابق ہندوستان کی کل آبادی ۱۲۱ کروڑ ہے۔ ان میں ہندوؤں کی تعداد 79.8 فیصد، مسلم 14.2 فیصد، عیسائی 2.3 فیصد، سکھ 1.7 فیصد، بودھ 0.7 فیصد، جین 0.4 فیصد ہے۔
لسانی اقلیت:
لسانی اقلیت کی کوئی واضح تعریف نہیں کی گئی ہے۔ حتی کہ رنگناتھ مشرا کمیشن    کی رپورٹ جو ہندوستان کی مذہبی اور لسانی اقلیتوں کے حالات کے جائزے کے لیے تشکیل دی گئی تھی تو کوئی واضح تعریف نہیں ملتی ہے۔
اس کو اس طرح سمجھا جاسکتا ہے کہ ہر صوبہ ؍ ریاست میں ایک غالب زبان ہوتی ہے جس کو لوگوں کی اکثریت بولتی ہے۔ اسے مقامی زبان کہا جاتا ہے۔ وہ تمام لوگ جو مقامی زبان نہیں بولتے ہیں لسانی اقلیت سے تعلق رکھتے ہیں۔
لسانی اقلیت کئی طرح کے ہوسکتے ہیں:
مستقل طور پر : جیسے بیلگام  ضلع میں مراٹھی زبان کے بولنے والے اور آسام میں بنگالی زبان کے بولنے والے۔
غیر مستقل:
جیسے اڑیا زبان بولنے والوں کو روزگار کے لیے گجرات  میں رہنا، بہاریوں کا پنجاب میں تامل کو دہلی میں رہنا۔
قانونی واساسی ادارے:
سنٹرل وقف کونسل (Central Wakf Council)
قومی اقلیتی کمیشن (National Commission for Minorities)
کمشنر برائے لسانی اقلیات ( Commissioner for Linquistic Minorities)
خود مختار ادارہ:
مولانا آزاد ایجوکیشن فاؤنڈیشن  (Mounala Azad Education FoundatioN)

قومی اقلیتی ترقیات و فنانس کارپوریشن 

Thursday 24 March 2016

عالمی یوم صحت

عالمی یوم صحت
۷؍ اپریل
عالم یوم صحت ڈبلیو ایچ او کی قیادت میں عالمی سطح پر  ہر سال ۷؍ اپریل کو منایا جاتا ہے تاکہ صحت کی اہمیت کی جانب پوری دنیا کے لوگوں کی توجہ مبذول کرائی جاسکے۔ عالمی یوم صحت طبی مسائل کی طرف لوگوں کی توجہ مبذول کرانے کے ساتھ ساتھ ڈبلیو ایچ او کے قیام کی یادگار کے طور پر بھی منایا جاتا ہے۔  عالمی صحت تنظیم (ڈبلیو ایچ او) نے ۱۹۴۸ میں جنیوا میں پہلی بار عالمی صحت کانفرنس منعقد کیا تھا جس میں ہر سال ۷؍ اپریل کو عالمی یوم صحت منانے کا بھی فیصلہ لیا گیا اور ۱۹۵۰ میں پہلی مرتبہ پوری دنیا میں عالمی یوم صحت منایا گیا۔ عالمی یوم صحت ، صحت کے موضوع اور مسائل پر لوگوں کے درمیان بیداری لانے کا ایک سالانہ پروگرام ہے۔ اس کے علاوہ پورے سال لوگوں کی توجہ صحت پر مرکوز رکھنے کے لیے اور  صحت پروگراموں کو جاری رکھنے کے لئے ایک مخصوص موضوع کا بھی انتخاب کیا جاتا ہے۔ چنانچہ ۱۹۵۵ میں اس کا مخصوص موضوع انسداد پولیو تھا۔ اس کا نتیجہ ہے کہ آج اس مہلک مرض سے بیشتر ممالک نجات پاچکے ہیں۔
عالمی سطح پر صحت کے سنگین مسائل کو عالمی یوم صحت کا موضوع بنایا جاتا ہے  ۔ جس کے تحت اسکولوں، کالجوں عوامی مقامات اور دیگر متعلقہ طبی تنظیموں اور ڈبلیو ایچ او کے ذریعہ کئی طرح کے پروگرام منعقد کئے جاتے ہیں ۔
ڈبلیو ایچ او اقوام متحدہ  کے تحت طب کے میدان میں کام کرنے والی ایک عالمی تنظیم ہے جس نے مختلف ترقی یافتہ ممالک میں جذام، پولیو، چیچک، دمسہ سمیت کئی سنگین بیماریوں  کو اپنے قیام کے دن سے مٹانے کی کوشش کی ہے اور ایک صحت مند دنیا کی تعمیر کے ہدف میں اہم رول ادا کیا ہے۔ اس کے پاس عالمی صحت کی رپورٹ کے تمام اعداد وشمار موجود ہیں۔
عالمی یوم صحت کیوں منایا جاتا ہے:
صحت تمام تر ترقیوں کی کلید ہے۔ صحت مند سماج کے بغیر ترقی ناممکن ہے اور غیر صحت مند سماج نہ صرف اپنے لئے بلکہ ملک اور دنیا کے لیے بھی ترقی میں رکاوٹ کا سبب بنتا ہے۔ اس لئے عالمی یومی صحت تندرست رہائش کی عادت کی حوصلہ افزائی، لوگوں کو صحت کی خدمات سے جوڑ کر زندگی کی امیدوں میں اضافے کی طرف اپنی توجہ مبذول کرتا ہے۔ ایڈز اور ایچ آئی وی سے پاک سماج بنانے  اور صحت مند رکھنے کے لئے  نوجوانوں کو بھی ہدف بنایا جاتا ہے۔
خوچ چوسنے والے ویکٹر جیسے مچھر (ملیریا، ڈینگو بخار، فلیرایا، چیکن گنیا، صفراوی بخار وغیرہ)  اور جراثیم کی وجہ سے پھیلنے والی بیماریوں  چچری کیڑے، سینڈ فلائیز اور گھونگھوں پر بھی ڈبلیو ایچ او خصوصی نظر رکھ رہی ہے۔
عالمی یوم صحت کے کچھ خاص مقاصد :
• ہائی بلڈ  پریشر کے مختلف اسباب اور بچاؤ کے بارے میں بیداری کو بڑھانا.
• مختلف بیماریوں اور ان کی پیچیدگیوں سے بچانے کیلئے مکمل  معلومات فراہم کرانا.
• پیشہ ورانہ طبی  خدمات کی حصولیابی  اور بلڈ پریشر کو بار بار چیک کرنے کے لیے حساس لوگوں کے گروپ کو فروغ دینا.
• لوگوں کو  اپنے آپ پر توجہ  رکھنے  کی  حوصلہ افزائی کرنا.
• اپنے ملک میں صحت مند ماحول  کو فروغ دینے  میں اپنی  کوشش کے ساتھ  عالمی سطح پر  ہیلتھ اتھاریٹیز کو رغبت دلانا۔
• مرض سے  غیر محفوظ علاقوں میں رہنے والے خاندانوں کو بچانا.
• مسافروں کو سفر کے دوران ویکٹر سے  پیدا ہونے  والی بیماریوں  سے  بچنے   کی معلومات دینا۔ .
عالمی یوم صحت کے سالانہ موضوعات:
• عالمی یوم صحت1950 کا موضوع تھا "اپنی صحت کی خدمات کو جانيے".
• عالمی یوم صحت1951 کا موضوع تھا "آپ  کے اور دنیا  بچوں کے لئے صحت".
• عالمی یوم صحت1952 کا موضوع تھا "صحت مند ماحول صحت مند لوگوں کو بناتا ہے".
• عالمی یوم صحت1953 کا موضوع تھا "صحت دولت ہے".
• عالمی یوم صحت1954 کا موضوع تھا "نرس: صحت کی پیش رو ہے".
• عالمی یوم صحت1955 کا موضوع تھا "صاف پانی مطلب بہتر صحت".
• عالمی یوم صحت1956 کا موضوع تھا "بیماری لئے ہوئے کیڑوں-پتنگوں کو ختم کرو".
• عالمی یوم صحت1957 کا موضوع تھا "سب کے لئے کھانا".
• عالمی یوم صحت1958 کا موضوع تھا "صحت ترقی کے 10 سال".
• عالمی یوم صحت1959 کا موضوع تھا "آج کی دنیا میں ذہنی بیماری اور ذہنی صحت ہے".
• عالمی یوم صحت1960 کا موضوع تھا "ملیریا کا انسداد- دنیا کے لئے چیلنج".
• عالمی یوم صحت1961 کا موضوع تھا "حادثے اور ان کا دفاع".
• عالمی یوم صحت1962 کا موضوع تھا " بینائی بچاؤ-  اندھے پن کو روکو".
• عالمی یوم صحت1963 کا موضوع تھا "بھوک = لاکھوں کی بیماری".
• عالمی یوم صحت1964 کا موضوع تھا " 'ٹی بی کے لیے کوئی جنگ بندی نہیں".
• عالمی یوم صحت1965 کا موضوع تھا "چیچک- مسلسل چوکنا رہیں".
• عالمی یوم صحت1966 کا موضوع تھا "مرد اور اس کا شہر".
• عالمی یوم صحت1967 کا موضوع تھا "صحت میں معاون".
• عالمی یوم صحت1968 کا موضوع تھا "کل کی دنیا میں صحت".
• عالمی یوم صحت1969 کا موضوع تھا "صحت، اجرت اور پیداوری".
• عالمی یوم صحت1970 کا موضوع تھا "کینسر کی ابتدائی شناخت : زندگی بچاتی ہے".
• عالمی یوم صحت1971 کا موضوع تھا "ذیابیطس کے باوجود ایک مکمل زندگی".
• عالمی یوم صحت1972 کا موضوع تھا "آپ کا دل آپ کی صحت ہے".
• عالمی یوم صحت1973 کا موضوع تھا "گھر سے صحت کی شروعات ہوتی ہے".
• عالمی یوم صحت1974 کا موضوع تھا "تنددرست دنیا کے لئے بہتر کھانا".
• عالمی یوم صحت1975 کا موضوع تھا "چیچک: دوبارہ واپسی ی  گنجائش نہیں".
• عالمی یوم صحت1976 کا موضوع تھا "دور بینی کور چشمی  سے بچاتا ہے".
• عالمی یوم صحت1977 کا موضوع تھا "اپنے بچوں کا استثنی اور دفاع کریں".
• عالمی یوم صحت1978 کا موضوع تھا "ہائی بلڈ پریشر سے نیچے".
• عالمی یوم صحت1979 کا موضوع تھا "ایک صحت مند بچہ: ایک یقینی مستقبل".
• عالمی یوم صحت1980 کا موضوع تھا "تمباکو نوشی اور صحت: انتخابات خوش ہے".
• عالمی یوم صحت1981 کا موضوع تھا "سال 2000 ایڈی سے سب کے لئے صحت".
• عالمی یوم صحت1982 کا موضوع تھا "سال میں زندگی جوڑے".
• عالمی یوم صحت1983 کا موضوع تھا "سال 2000 ایڈی سے سب کے لئے صحت" گنتی شروع ہو چکی ہے. "
• عالمی یوم صحت1984 کا موضوع تھا "بچوں کی صحت: کل کی دولت".
• عالمی یوم صحت1985 کا موضوع تھا "صحت مند يوا- ہمارے بہترین وسائل".
• عالمی یوم صحت1986 کا موضوع تھا "صحت مند جینا: ہر فاتح ہے".
• عالمی یوم صحت1987 کا موضوع تھا "استثنی: ہر بچے کے لئے ایک موقع".
• عالمی یوم صحت1988 کا موضوع تھا "سب کے صحت: صحت کیلئے تمام".
• عالمی یوم صحت1989 کا موضوع تھا "آئیے صحت کے بارے میں بات کریں".
• عالمی یوم صحت1990 کا موضوع تھا "ہمارا سیارے ہماری زمین: سوچیں عالمی، کام مقامی".
• عالمی یوم صحت1991 کا موضوع تھا "کیا آفت حملہ کرے گا، تیار رہیں".
• عالمی یوم صحت1992 کا موضوع تھا "دل کی دھڑکن: صحت کی تال".
• عالمی یوم صحت1993 کا موضوع تھا "احتیاط سے زندگی کو سنبھالیں: تشدد اور غفلت سے بچائیں".
• عالمی یوم صحت1994 کا موضوع تھا "ایک صحت مند زندگی کے لیے زبانی صحت"
• عالمی یوم صحت1995 کا موضوع تھا "عالمی پولیو خاتمہ".
• عالمی یوم صحت1996 کا موضوع تھا "بہتر زندگی کے لئے صحت مند شہر".
• عالمی یوم صحت1997 کا موضوع تھا "آنے والا متعدی مرض".
• عالمی یوم صحت1998 کا موضوع تھا "محفوظ زچگی".
• عالمی یوم صحت1999 کا موضوع تھا "فعال بڑھاپا فرق پیدا کر سکتا ہے".
• عالمی یوم صحت2000 کا موضوع تھا "محفوظ خون کے آغاز مجھ سے ہوئی".
• عالمی یوم صحت2001 کا موضوع تھا "ذہنی صحت: بائیکاٹ روک دیں، علاج کی ہمت کریں".
• عالمی یوم صحت2002 کا موضوع تھا "صحت کیلئے چلیں".
• عالمی یوم صحت2003 کا موضوع تھا "زندگی کے مستقبل کی صورت گری دیں: بچوں کے لئے صحت مند ماحول".
• عالمی یوم صحت2004 کا موضوع تھا "سڑک کی حفاظت".
• عالمی یوم صحت2005 کا موضوع تھا "ہر ماں اور بچوں کی گنتی".
• عالمی یوم صحت2006 کا موضوع تھا "صحت کیلئے مل کر کام کریں".
• عالمی یوم صحت2007 کا موضوع تھا "بین الاقوامی صحت کی حفاظت".
• عالمی ادارہ صحت دن 2008 کا موضوع تھا "موسمیاتی تبدیلی کے برعکس اثرات سے صحت کو محفوظ کریں".
• عالمی یوم صحت2009 کا موضوع تھا "زندگی بچائیں، ہنگامی صورت حال میں محفوظ ہسپتال بنائیں".
• عالمی یوم صحت2010 کا موضوع تھا "شہریکرن اور صحت: شہر کو صحت مند بنائیں".
• عالمی یوم صحت2011 کا موضوع تھا "سوکشمجیووں مخالف کو روکنے کے: آج کوئی فعل نہیں، کل کوئی علاج نہیں".
• عالمی ادارہ صحت دن 2012 کا موضوع تھا "اچھی صحت زندگی میں اور وقت جوڑ دیتے ہیں".
• عالمی ادارہ صحت دن 2013 کا موضوع تھا "صحت مند دل کی دھڑکن، صحت مند بلڈ پریشر".
• عالمی ادارہ صحت دن 2014 کا موضوع تھا "ویکٹر سے جنم لینے والی بیماری".
• عالمی ادارہ صحت دن 2015 کا موضوع تھا "کھانے کی حفاظت" (5 حل کے ساتھ؛ حل 1: ہمیشہ صفائی رکھیں، حل 2: پکا ہوا اور خام کھانے کو الگ رکھیں، حل 3: کھانے کو اچھے سے پكايے، حل 4: کھانے کو محفوظ درجہ حرارت پر رکھیں، حل 5: محفوظ پانی اور خام سامانوں کا استعمال کریں).

• عالمی یوم صحت2016 کا تھیم ہے "ذیابیطس: روک تھام بڑھانا، دیکھ بھال کو مضبوط کرنا اور نگرانی میں اضافہ کرنا".

کور چشمی (اندھا پن ) روک تھام ہفتہ

انسداد کور چشمی (اندھا پن )ہفتہ
یکم اپریل تا ۷؍ اپریل
ہندوستان میں یکم اپریل سے ۷؍ اپریل کے درمیان  انسداد کور چشمی  ہفتہ منایا جاتا ہے۔ حکومت ہند کی جانت سے نابینا افراد کے سلسلے میں عوام میں بیداری لانے کے لیے اس ہفتے کو منانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اندھا پن ایک اہم  مسئلہ اور نابینا افراد کی بڑی سنگین حالت  ہے جس کو کوئی بینا  شخص اس طرح محسوس نہیں کرسکتا جیسا کہ کوئی نابینا کرسکتا ہے۔ اس لئے ملک بھر کے تمام لوگوں کے درمیان اس مہم کو پھیلانے کا اہتمام کیا جا تا ہے تاکہ نابینا افراد کے لئے آنکھوں  کی اہمیت کو سمجھا جاسکے۔ ہمیں یہ معلوم ہونا چاہئے کہ ہندوستان میں ایک بہت بڑی تعداد ایسی ہے جو یا تو پیدائشی طور پر اندھے ہیں یا پھر کسی حادثے کی وجہ سے اندھے ہوگئے ہیں۔اعداد وشمار کے مطابق ہمارے ملک میں ۱۰؍ ملین لوگ ایسے ہیں جو اندھے پن کے شکار ہیں جبکہ عالمی سطح پر تقریبا ۳۷ ملین لوگ اندھے پن کے شکار ہیں۔
حکومت ہند نے اس مہم کا آغاز کیا ہے کہ تاکہ لوگوں کو ایسا بہتر موقع فراہم کیا جاسکے کہ وہ نابینا افراد کے لیے مختلف طرح کے رفاہی خدمات انجام دے سکیں جیسے مختلف طرح کے اداروں، ایجنسیوں اور اسپتالوں کا قیام وغیرہ۔ ایسی امید کی گئی ہے کہ اس مہم ہفتے کے ذریعہ لوگ حفظان صحت اور حفظان چشم سے متعلق معلومات حاصل کرسکیں گے ۔ ہندوستان کئی مقامات پر متاثرہ افراد اپنے حقوق کے لئے مظاہرہ کرتے ہیں جن کا ہونا ضروری ہے۔
کئی تعلیمی ادارے ایسے ہیں جو نابینا طلبہ کی تعلیم کے لئے مختص ہیں مگر اب بھی اس جانب مزید توجہ کی ضرورت ہے۔ اس لئے اس مہم کو کامیاب کرنے  کے لئے مختلف شعبوں، اشاعتی اداروں غیر سرکاری تنظیموں کو ایک ساتھ مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ نابینا افراد کے تعاون سب سے بہتر اور مؤثر طریقہ ‘‘عطیہ چشم’’ ہے  جس کے ذریعہ ان کی تاریک زندگی میں مستقل طور پر روشنی لائی جاسکے۔ اس مہم کا یہ بھی مقصد ہے کہ لوگوں کی توجہ ان خطرناک امور کی طرف مبذول کرائی جاسکے جو بینائی کے کھونے کاسبب بنتے ہیں۔ لوگوں کو آنکھوں کی بیماریوں سے واقف کراتے ہوئے یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ وہ آنکھوں کی حفاظت کے لیے اپنے قریب کے امراض چشم کے ماہرین سے ملک کر وقفے وقفے جانچ کراتے رہیں۔
اس مہم میں سرکاری محکموں کے اعلی تعلیم یافتہ ، رضا کار تنظیموں اور ریاستی ہیلتھ ایجوکیشن بیورو کے افراد کو لگایا جائے گا جو لوگوں کے درمیان بیداری کو فروغ دینے کا کام رہے ہیں۔ یہ بہت ضروری ہے کہ لوگوں کو اندھے پن کے تمام اسباب سے واقف کراتے ہوئے بینائی کی اہمیت کے سلسلے میں  ان کو  متنبہ اور بیدار کیا جائے۔ اعداد وشمار کے مطابق ہندوستان میں اندھوں کی اتنی بڑی تعداد ہے کہ ہر تین شخص میں ایک شخص اندھا ہے۔ اندھے پن کی اہم وجوہات  ترکوما،( trachoma) موتیابین، وٹامن اے کی کمی، غذائی قلت، بینائی جانچ کے ماہرین(optometrists) اور عطیہ چشم  کی قلت ہیں۔ایک سروے کے مطابق مدھیہ پردیش اور راجستھان اندھے پن کی سب سے زیادہ متاثر ریاستیں ہیں۔
انسداد کور چشمی ہفتہ کا آغاز:
انسداد کور چشمی ہفتے کا آغاز جواہر لال نہرو اور راج کماری امرت کور نے سوسائٹی رجسٹریشن ایکٹ ۱۸۶۰ کے تحت ۱۹۶۰ میں کیا تھا۔ اس کے علاوہ عالمی صحت تنظیم (ڈبلیو ایچ او ) نے بھی کور چشمی پر قابو پانے کے لیے ‘‘بینائی کا حق’’ نام سے ایک مہم شروع کی تھی۔

نوٹ: ترکوما (Trachoma): آنکھوں  کا ایک  جرثوماتی مرض جو متعدی ہوتا ہے۔ اس میں پتلی کی اندرونی سطح میں  خون جم جاتا ہے۔


Wednesday 23 March 2016

عالمی یوم تپ دن

۲۴؍ مارچ
عالمی یوم تپ دن
۲۴؍ مارچ کو عالمی یوم تپ دق  منایا جاتا ہے۔ اسی دن ۱۹۸۲ میں ڈاکٹر رابرٹ کوچ نے تپ دق کے  سبب بننے والے جراثیم ٹی بی بیسلس کی بازیافت کی تھی۔ یہ تحقیق میڈیکل سائنس کے لیے بہت بڑا قدم تھا۔ ڈاکٹر کوچ کی یہ تلاش تپ دن کی تشخیص اور علاج کے بہت بڑی چیز ہے۔ اسے ہر چھوٹی کامیابی نہیں سمجھی جاسکتی ہے کیونکہ اس وقت دنیا ٹی بی حملوں کو روکنے کی بڑی جد وجہد کر رہی تھی۔ ان سب کو دیکھتے ہوئے عالمی صحت تنظیم (ڈبلیو ایچ او) اور اقوام متحدہ کی صحت اتھاریٹی نے ۲۴؍ مارچ کو عالمی یوم تپ دق قرار دیا۔
عالمی صحت تنظیم نے ۲۰۱۵ تپ دق کے زور اور اس کی وجہ ہونے والی اموات کی شرح کو  نصف تک لانے کا ہدف متعین کیا۔ ایسا سمجھا جاتا ہے کہ ایک تہائی دنیا تپ دق سے کسی نہ کسی طور پر متاثر ہے اور جس تیزی کے ساتھ اس کا پھیلاؤ ہورہا ہے اس میں اگر ہمیں اس لعنت سے مکمل چھٹکارا حاصل کرنا ہے کہ تو ہمیں اپنی کوششیں اور بھی تیز کرنی ہوں گی۔ عالمی یوم تپ دق کا مقصد بھی یہی ہے کہ تپ دق کی عالمی وبا کو اور بیماری کو ختم کرنے کوششوں کے سلسلہ میں مزید بیداری لائی جائے۔ اس سلسلہ میں کئی ممالک اور تنظیموں کا ایک نیٹ ورک بھی ہے جسے اسٹاپ ٹی بی پارٹنر شپ (Stop T.B. Partnership) کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ نیٹ ورک ۲۴؍ مارچ کو یہ دن مناتا ہے تاکہ اس بیماری کے امکانات اور اس کوروکنے اور علاج کی کوششوں کو اجاگر کیا جاسکے۔
گرچہ ڈبلیو ایچ او کی جانب سے ٹی بی کے علاج کی بہیترے کوشش کی گئی ہے لیکن اس کے باوجود ریڈ کراس کی بیا الاقوامی کمیٹی کے مطابق یہ کوششیں ابھی ناکافی ہیں۔ کمیٹی کا مشورہ ہے کہ اگر ہم اس مہلک مرض سے نجات کی کوئی امیداور امکان چاہتے ہیں تو اعلی حکام کو اس کے لیے اضافی کوششیں کرنی ہوں گی۔ صورتحال بہت سنگین ہیں لیکن مناسب اقدامات ہوئے تو آنے والے دنوں میں اس کی تعداد کو کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔
عالمی یوم تپ دق پر مختلف طرح کے پروگرام منعقد کئے جاتے ہیں۔ طبی ایجنسیاں کمیونٹی مباحثہ کا اہتمام کرتی ہے کہ جس میں ٹی وی کی روک تھام کے طریقوں پر غور وخوض کیا جاتا ہے۔ عالمی بیداری میں اضافہ کے لیے بڑے بڑے طبی مراکز پر فوٹو نمائش کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ تپ دق کے انسداد کے طریقوں اور بیداری کو فروغ دینے کے لیے حکومتی ایجنسیوں اور کمیونٹی گروپ کی جانب سے پرنٹ، الیکٹرانک اور آن لائن میڈیا کی خدمات بھی حاصل کی جاتی ہیں۔ کئی رفاہی ادارے بھی تپ دق پر قابو پانے کے لیے مالی امداد کی فراہمی میں حصہ لیتے ہیں۔

Tuesday 22 March 2016

یوم الشہدا

یوم الشہدا
۳۰؍ جنوری اور ۲۳؍ مارچ
ہندوستان میں یوم الشہدا  اور شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے منایا جاتا ہے جنہوں نے ملک کی آزادی، فلاح وبہبود اور ترقی کے لیے لڑائی کی اور اپنی جانوں کی قربانیاں پیش کیں۔ یہ ہر سال ۳۰ جنوری اور۲۳ مارچ کو ملک بھر میں منایا جاتا ہے۔ ہندوستان ان ۱۵؍ ممالک میں سے ایک جہاں مجاہدین آزادی کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے یہ دن منایا جاتا ہے۔
بابائے قوم مہاتما گاندھی پیدائشی طور پر ایک برہمن تھے لیکن  انہوں نے  انسانیت کو ہی ہمیشہ اپنا مذہب سمجھا. ان کے لئےجنگ کند ہتھیار تھا۔ اس لئے انہوں نے آزادی کے حصول کے لئے عدم تشدد کی راہ کو ہی سب سے اہم ہتھیار سمجھا۔
یوم الشہدا ہر سال ۳۰ جنوری کو منایا جاتا ہے  جس  دن ۱۹۴۸ میں بابائے قوم مہاتما گاندھی کو  آر ایس ایس رکن ناتھو رام گوڈ سے گولی مار کر قتل کردیا گیا تھا۔ وہ اس وقت سورج غروب کے وقت عبادت میں مصروف تھے۔گاندھی جی کا شمار عظیم مجاہد آزادی میں ہوتا ہے۔ انہوں نے تادم حیات ملک کی آزادی، فلاح اور ترقی کے لیے جانفشانی کی۔ ۳۰ جنوری مہاتما گاندھی کا یوم شہادت ہے جو حکومت ہند کے ذریعہ یوم الشہدا کے طور پر اعلان کیا گیا تھا۔ تب سے اس دن کو ان کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے یہ دن منایا جاتا ہے۔
۳۰؍ جنوری ۱۹۴۸ ہندوستان کی تاریخ  کا سب سے بدترین اور افسوسناک دن تھا جب ان کو برلا ہاؤس کے گاندھی اسمرتی میں شام کی اپاسنا (عبادت) کے وقت ۷۸ سال کی عمر میں شہید کردیا گیا۔
ابھی ان کی قیادت میں سخت جدوجہد کے بعد آزادی کے حصول کو چند برس گذرے تھے بابائے قوم مہاتما گاندھی کو شہید کردیا گیا جو ملک کے لئے بہت بڑی بدقسمتی تھی۔ شام کی اپاسنا کے لئے آئی ہوئی ایک بڑی بھیڑ کے سامنے  ان کو قتل کیا گیا۔ ان کے قتل کے بعد برلا ہاؤس کے سامنے بہت بڑا ہجوم جمع ہوا تھا جو اپنے باپو کو ایک نظر آخری بار دیکھ لینا چاہتا تھا۔ گاندھی وہ عظیم شخصیت تھے جنہوں نے ملک کے لاکھوں لوگوں (مرد وعورت) کے ساتھ ملک ہندوستانی آزادی کے لئے قربانی دی اور بالآخر ۳۰ جنوری ۱۹۴۸ کو شہید کردیئے گئے۔
یوم الشہدا بابائے قوم مہاتما گاندھی ان تمام شہدا کی قربانیوں کو یاد کرنے اور خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے منایا جاتا ہے جنہوں نے ملک کی آزادی کے لئے اپنی جان کی قربانی پیش کی۔
آزادی کے بعد گاندھی نے لوگوں کےد رمیان امن ، بھائی چارہ اور ہم آہنگی پیدا کرنے کی مشن شروع کی تھی لیکن اسی درمیان وہ شہید کردیئے گئے۔


بھگت سنگھ 

۲۳؍ مارچ کو بھی ہندوستان میں یوم الشہدا تسلیم کیا گیا ہے جس دن بھگت سنگھ، شیو رام راج گرو اور سکھ دیو تھاپر کی قربانیوں کو یاد اور ان کو خراج عقیدت پیش کیا جائے۔ بھگت سنگھ، راج گرو اور سکھ دیو تھاپر نے ہندوستانی کی آزادی کے لیے برطانوی حکومت کے خلاف جنگ کی تھی۔
بھگت سنگھ ایک ہندوستان میں ایک عظیم مجاہد آزدی کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ ان کی پیدائش ۲۸ ستمبر ۱۹۰۷ کو پنچایت کے لیل پور میں ایک سکھ خاندان میں ہوئی۔ ان کے والد ایک تنظیم کے ممبر تھے جس کا نمبر غدر پارٹی تھا۔ یہ تنظیم جنگ آزدی ہند کے لیے کام کرتی تھی۔
بھگت سنگھ نے اپنے دیگر ساتھیوں راج گرو، آزاد، سکھ دیو اور جے گوپال کے ساتھ لالہ لاجپت رائے  کی  موت کا بدلہ لینے کے لئے انگریزوں کے خلاف جنگ چھیڑ دی تھی۔ بھگت سنگھ اپنے جوش اور جذبے کی وجہ سے اس وقت کے نوجوانوں کے ہیرو بن گئے تھے۔
۸؍ اپریل ۱۹۲۹ کو انہوں نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ سنٹرل لجسلیٹیو اسمبلی پر ‘‘انقلاب زندہ باد’’ کا نعرہ لگاتے ہوئے بم پھینک دیا تھا۔ اس کی پاداش میں ان پر قتل کا جرم عائد کیا گیا اور ۲۳ مارچ ۱۹۳۱ کو لاہور جیل میں شام کے ۷:۳۰ بجے پھانسی پر لٹکادیا گیا۔ دریائے ستلج کے کنارے ان کی آخری رسوم ادا کی گئی۔ اب ان کی جائے پیدائش  ہند وپاک کی سرحد پر واقع حسین والا میں قومی شہدا یادگار پر ایک بڑے شہید میلے کا انعقاد کیا جاتا ہے۔
اس دن صدر جمہوریہ ہند، نائب صدر، وزیر اعظم ، وزیر دفاع اور سروس چیف راجگھاٹ واقع گاندھی سمادھی جاتی ہے اور گاندھی جی کے مجسمے پر گلپوشی کی جاتی ہے اور مسلح افواج کی جانب سے ان کی شہادت کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے سلامی بھی دی جاتی ہے۔ اس کے بعد وہاں موجود لوگ بابائے قوم مہاتما گاندھی اور ملک کے دیگر شہدا کی یاد میں ۲؍ منٹ کی خاموشی اختیار (مون دھارن) کرتے ہیں۔ اس کے بعد کچھ بھکتی گیت بھی گائے جاتے ہیں۔
اسکولوں میں بھی گاندھی کی زندگی اور فلسفہ حیات کے حوالے سے کئی طرح کی تقریبات کا انعقاد کیا جاتا ہے۔
ان کے علاوہ کچھ اور بھی دن جن میں یوم الشہدا منایا جاتا ہے۔
۱۳؍ جولائی
۱۳؍ جولائی کو جمو کشمیر میں ان ۲۲؍ لوگوں کی شہادت کو یاد کرنے کے لیے یوم الشہدا منایا جاتا ہے جو کشمیر کے مہاراجہ ہری سنگھ سے متعلق مظاہرے کے درمیان شاہی فوجیوں کے ذریعہ ہلاک کردیئے گئے تھے۔
۱۷ نومبر



۱۷؍ نومبر کو اڑیسہ میں لالہ لاجپت رائے (جو شیر پنجاب کے نام سے بھی مشہور ہیں) کی یوم وفات کی یاد میں منایا جاتا ہے۔ وہ ہندوستان کی جنگ آزادی کے ایک اہم لیڈر اور مجاہد آزادی تھے۔
۱۹؍ نومبر
۱۹؍ نومبر (یوم پیدائش رانی لکشمی بائی) کو بھی جھانسی میں یوم الشہدا منایا جاتا ہے۔ یہ دن لوگوں کے احترام میں منایا جاتا ہے جنہوں نے پہلی جنگ آزادی ۱۸۵۷ میں اپنی جان کی قربانی پیش کی۔ رانی لکشمی بائی اس جنگ کی ایک اہم لیڈر تھی۔ 

عالمی یوم آب

عالمی یوم آب
۲۲؍ مارچ
عالم یوم آب
۲۲؍ مارچ
پوری دنیا  میں ہر سال ۲۲؍ مارچ کو عالمی یوم آب منایا جاتا ہے۔ ۱۹۹۳ میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی طرف سے اس دن کو ایک سالانہ پروگرام کے طور پر منانے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس مہم کا اعلان اس لئے کیا گیا تھا کہ لوگوں کے درمیان پانی کی اہمیت، ضرورت اور تحفظ کے بارے میں بیداری بڑھائی جاسکے۔
پانی کی اہمیت:
پانی، انسان کے لئے فطرت کا قیمتی  عطیہ۔ جینے کے لیے ہوا کے بعد سب سے انسان کی سب سے اہم ضرورت پانی ہی ہے۔ انسانی جسم میں دو تہائی مقدار پانی ہے۔دماغ کا ۷۵ فیصد حصہ پانی ہے۔ خون کا ۸۳ فیصد حصہ پانی ہے۔ ہڈیوں کا ۲۲؍ فیصد حصہ پانی ہے۔ گوشت (Muscles) کا ۷۵ فیصد حصہ پانی ہے اور پھیپھڑے کا ۹۰ فیصد حصہ پانی ہے۔  زمین کی ہر مخلوق کے لئے پانی  انتہائی ضرور۔ درخت پودوں کے لئے بھی پانی کی بہت ضرورت ہوتی ہے۔گویا زندگی کا انحصار پانی پر ہی ہے۔  اس کے باوجود یہ حقیقت ہے کہ دنیا بھرمیں پانی ضائع اور گدلا کیا جارہا ہے جس سے دنیا بھر میں صاف پانی کی قلت کا مسئلہ پیدا ہو رہا ہے۔ کئی ممالک اور ہمارے ملک کی بھی کئی ریاستوں میں پانی کی انتہائی قلت ہے۔ کئی جگہوں پر ہفتے میں ایک دن پانی ملتا ہے۔ پانی اس قلت کو دیکھتے ہوئے ماہرین کا اندازہ ہے کہ دنیامیں تیسری جنگ عظیم پانی کے لیے ہی ہوگی۔ اس لئے پانی کا تحفظ انتہائی ضروری ہے۔
یہ پہلی بار سال ۱۹۹۲ میں برازیل کے ریو ڈی جےنیريو میں "ماحولیات اور ترقی پر اقوام متحدہ کے کنونشن" کی شیڈول ۱۲ میں سرکاری طور سے شامل کیا گیا تھا اور پورے دن کے لیے اپنے نل کے غلط استعمال کو  روک کر  پانی کے تحفظ میں  تعاون دینے کی  حوصلہ افزائی کرنے کے لئے  ۱۹۹۳ سے اس جشن کو منانے کا آغاز کیا گیا۔
یہ مہم اقوام متحدہ کی سفارش کو  نافذ کرنے کے ساتھ ہی عالمی سطح پر پانی کے تحفظ کے لئے حقیقی سرگرمیوں کو فروغ دینے کے لئے تمام اراکین سمیت اقوام متحدہ کی طرف سے منایا جاتا ہے۔ اس مہم کو  ہر سال اقوام متحدہ ایجنسی کی ایک یونٹ کی طرف سے خاص طور سے فروغ دیا جاتا ہے جس میں لوگوں کو پانی کے مسائل کے بارے میں  سمجھنے اور سمجھانے کی حوصلہ افزائی کرنے کے ساتھ ساتھ عالمی یوم آب کے لئے بین الاقوامی سرگرمیوں کو  شامل کیا جاتا ہے۔ اس پروگرام کے آغاز سے ہی  عالمی یوم آب پر عالمی پیغام کو پھیلانے کے لئے تھیم (موضوع) کا انتخاب  کیا جاتا ہے۔ اس میں اقوام متحدہ ارکان ممالک اور ایجنسیوں سمیت مختلف این جی اوز اور غیر سرکاری تنظیمیں پانی کے تمام پیچیدہ مسائل  پر لوگوں کی توجہ مبذول کرنے اور صاف پانی کے تحفظ کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ اس دن کو منانے کے لیے منعقد پروگراموں میں  پانی سے متعلق تمام مسائل کو عوام کے سامنے بے نقاب کیا جاتا ہے  اور بتایا جاتا ہے کہ کس طرح صاف پانی لوگوں کی رسائی سے دور ہو رہا ہے وغیرہ۔
عالمی یوم آب کی علامت:
نیلے رنگ کے پانی کی بوند کی شکل عالمی یوم آب جشن کی علامت ہے۔

عالمی یوم آب کا  کا موضوع:

۱۹۹۳ کے عالمی یوم آب جشن کا موضوع تھا "شہر کے لئے پانی"۔
۱۹۹۴ کے عالمی یوم آب جشن کا موضوع تھا " پانی کے وسائل کا  تحفظ ہر ایک کا فریضہ"۔
۱۹۹۵ کے عالمی یوم آب جشن کا موضوع تھا "عورت اور پانی"۔
۱۹۹۶ کے عالمی یوم آب جشن کا موضوع تھا "پیاسے شہر کے لئے پانی"۔
۱۹۹۷ کے عالمی یوم آب جشن کا موضوع تھا "دنیا کا پانی: کیا کافی ہے"۔
۱۹۹۸ کے عالمی یوم آب جشن کا موضوع تھا "ارضی آب- پوشیدہ وسائل"۔
۱۹۹۹ کے عالمی یوم آب جشن کا موضوع تھا "ہر کوئی بہاؤ کی طرف جی رہا ہے"۔
۲۰۰۰ کے عالمی یوم آب جشن کا موضوع تھا "21 ویں صدی کے لیے پانی"۔
۲۰۰۱ کے عالمی یوم آب جشن کا موضوع تھا "صحت کیلئے پانی"۔
۲۰۰۲ کے عالمی یوم آب جشن کا موضوع تھا "ترقی کیلئے پانی"۔
۲۰۰۳ کے عالمی یوم آب جشن کا موضوع تھا "مستقبل کیلئے پانی"۔
۲۰۰۴ کے عالمی یوم آب جشن کا موضوع تھا "پانی اور تباہی"۔
۲۰۰۵ کے عالمی یوم آب جشن کا موضوع تھا "2005-2015 زندگی کے لیے پانی"۔
۲۰۰۶ کے عالمی یوم آب جشن کا موضوع تھا "پانی اور ثقافت"۔
۲۰۰۷ کے عالمی یوم آب جشن کا موضوع تھا "پانی کے بحران سے نبرد آزمائی"
۲۰۰۸ کے عالمی یوم آب جشن کا موضوع تھا "حفظان صحت"۔
۲۰۰۹ کے عالمی یوم آب جشن کا موضوع تھا "پانی کے پار"۔
۲۰۱۰ کے عالمی یوم آب جشن کا موضوع تھا "صحت مند دنیا کے لئے صاف پانی"۔
۲۰۱۱ کے عالمی یوم آب جشن کا موضوع تھا "شہر کے لئے پانی: شہری چیلنج کے لئے رد عمل"۔
۲۰۱۲ کے عالمی یوم آب جشن کا موضوع تھا "پانی اور کھانے کی حفاظت"۔
۲۰۱۳ کے عالمی یوم آب جشن کا موضوع تھا "پانی تعاون"۔
۲۰۱۴ کے عالمی یوم آب جشن کا موضوع تھا "پانی اور توانائی"۔
۲۰۱۵ کے عالمی یوم آب جشن کا موضوع تھا "پانی اور طویل مدتی ترقی"۔
۲۰۱۶ کے عالمی یوم آب جشن کے لئے موضوع ہو گا "پانی اور ملازمت"
۲۰۱۷ کے عالمی یوم آب جشن کے لئے موضوع "گندہ پانی" ہو گا۔
۲۰۱۸ کے عالمی یوم آب جشن کے لئے موضوع "پانی کے لئے فطرت کی بنیاد پر حل"  ہوگا۔