Monday 25 September 2017

عالمی یوم سگ گزیدگی

عالمی یوم سگ گزیدگی (World Rabies Day)
۲۸ ستمبر
                عالمی یوم سگ گزیدگی ورلڈ ریبیز ڈے ہر سال ۲۸ ستمبر کو دنیا بھر میں منایا جاتا ہے۔ اس دن کے منانے کا مقصد ریبیز کے پھیلاؤ پر قابو پانے، روک تھام کے لیے لوگوں میں بیداری لانا ہے۔
                یہ فرانسیسی کیمسٹ اور مائیکرو بایولوجی کے ماہر لوئیس پاسچر کی موت کے دن کا بھی یادگار ہے۔ لوئیس پاسچر نے پہلی مرتبہ ریبیز ویکسین کی دریافت کی تھی۔
ریبیز ایک مہلک بیماری ہے جو جانوروں سے انسانوں میں (Zoonotic)اثر انداز ہونے والی بیماری ہے۔ ریبیز لائسا وائرس کی وہ سے پھیلنے والی بیماری ہے۔ یہ زخم یا خراش یا متاثر جانور کے رابطے میں آنے (کاٹنے سے )انسانوں میں پھیلتی ہے۔ یہ انسان پر اثر ہونے کے بعد ریڑھ کی ہڈی اور دماغ کی طرف بڑھتا ہے۔ دماغ میں پہنچنے کے بعد اس وائرس کی علامتیں متاثر انسان پر دکھائی دینے لگتی ہیں۔
’’رے بیز (Rabies) یا سگ گزیدگی ایک موذی بیماری ہے جو عموماً پاگل کتے کے لعاب میں موجود وائرس سے ہوتی ہے اور ایسے کتے کے کاٹنے سے انسانی جسم میں پھیل جاتی ہے ۔اس بیماری کا پہلے کوئی قابل اعتماد علاج نہ تھا ۔ 6 جولائی 1885 میں لوئی پاسچرنامی سائنسدان نے رے بیز میں مبتلا پہلے انسان کا علاج کیا جو کامیاب رہا۔
رے بیز کی مہلک بیماری انسانوں میں دودھ پلانے والے جانوروں خاص طور پر کتے ، بلی ، چمگادڑ ، لومڑی ، گیدڑ اور نیولے کے کاٹنے سے منتقل ہوتی ہے ۔ رے بیز کا وائرس (Rhabdoviridae) کی فیملی Lyssavirus سے تعلق رکھتا ہے ۔ اس وائرس کی شکل پستول کی گولی سے مشابہت رکھتی ہے ۔ یہ وائرس رے بیز کی بیماری میں مبتلا جانور جس کو پاگل (Rabid) کہا جاتا ہے کہ منہ کی رطوبت میں پایا جاتا ہے ۔ جب بیماری میں مبتلا جانور انسان کو کاٹتا ہے تو یہ وائرس اس رطوبت کے ذریعے انسانی جسم میں داخل ہوجاتا ہے اور پھر انسان بھی اس بیماری میں مبتلا ہوجاتا ہے ۔
رے بیز کا وائرس انسانی جسم میں خون کے ذریعے سفر نہیں کرتا بلکہ ہمارے اعصاب (Never Fibres) کے ذریعے سفر کرتاہوا دماغ تک پہنچتا ہے۔ یہ وائرس 2.3 ملی میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کرتا ہے ، اس لئے یہ تصور کیا جاتا ہے کہ کاٹنے کا زخم دماغ سے جتنا قریب ہوگامریض کی جان کو زیادہ خطرہ لاحق ہوگا۔ رے بیز وائرس انسانی جسم میں برسوں تک زندہ ر ہ سکتا ہے اور اپنی علامات دس دن سے ایک سال کی مدت میں ظاہر کرسکتاہے ۔
رے بیز کی بیماری کی علامات کے اعتبار سے دو اقسام ہیں ۔(01) فیورس(Furious) ، (02) ڈمپ(Dumb) ۔ پہلی قسم میں مریض کے دماغ میں سوزش ہونے کے باعث وہ ڈپریشن اور بے چینی محسوس کرتا ہے ۔ جبکہ دوسری قسم میں مریض اعضاء کے پٹھوں کی کمزوری اور فالج کی سی کیفیت میں مبتلا ہوجاتا ہے جو کافی خطرناک ہوتی ہے ۔ رے بیز کی پہلی علامت کتے کے کاٹنے کے دو سے چار دنوں میں ظاہر ہونا شروع ہوجاتی ہے پہلے مرحلے میں مریض کو زخم کے ارد گرد چبھن ، خارش اور درد محسوس ہوتا ہے ۔ مریض بے چینی،  تھکاوٹ ، سردرد اور بخار محسوس کرتاہے ۔ جب رے بیز کا وائرس دماغ تک پہنچ جاتا ہے تو اس پر ہیجانی دورے پڑنے شروع ہوجاتے ہیں۔ مریض کو پانی پینے اور دیکھتے ہوئے خوف محسوس ہوتاہے ۔ سانس لینے میں دشواری او رکاوٹ ہوتی ہے ۔ آنکھوں کی پتلی ٹھہر جاتی ہے ۔ یہ تمام علامات فیوریس رے بیز کی ہیں ۔ ایسے مریضوں کو فوری طور پر کسی علیحدہ اور محفوظ جگہ پر منتقل کردینا چاہیے، کیونکہ رے بیز کی بیماری میں مبتلا شخص کے کاٹنے سے یہ بیماری دوسروں تک منتقل ہوسکتی ہے ۔ دوسری قسم ڈمب رے بیز میں مریض بالکل بے سدھ اور فالج کی سی کیفیت میں مبتلا ہوجاتاہے ۔ غشی و نیم بے ہوشی طاری ہوجاتی ہے اور پھر کچھ عرصے کے بعد مریض کی موت واقع ہوجاتی ہے ۔
رے بیز کی موذی بیماری سے بچاؤ ممکن ہے ۔ وہ افراد جو کتوں کو پالتے ہیں یا وہ افراد جو ان جانوروں کے علاج معالجے سے منسلک ہیں یا ایسے فارم جہاں ان جانوروں کی افزائش کی جاتی ہے ، انہیں چاہیے کہ اپنے پالتو کتوں کو رے بیز سے بچاؤ کے ٹیکے ''ویکسین'' لگوائیں اور خود بھی اس موذی مرض سے بچاؤ کے ٹیکوں کا کورس کروائیں۔ 
عالمی ادارہئ صحت(WHO) کے مطابق رے بیز سے بچاؤ کے لئے صرف تین ٹیکوں کا کورس ہوتا ہے جو پہلے دن ، ساتویں دن اوراٹھائیسویں دن لگتا ہے ۔ اس کے بعد حفاظتی اقدام کے طور پر ایک سال کے بعد ایک ٹیکہ اور پانچ سال کے عرصے میں اس کی حفاظت کے لئے ایک ٹیکہ دیا جاتا ہے ۔ اس طرح ہر پانچ سال کے بعد یہ ٹیکہ لگانے سے ساری زندگی اس بیماری سے بچاؤ ممکن ہے ۔
رے بیز کی بیماری کے طریقہ ئ علاج کے سلسلے میں چند ضروری باتیں یاد رکھنی چاہیے ۔ مذکورہ تمام جانوروں خاص طور پر کتے کے کاٹنے کے فوراً بعد متاثرہ شخص کے زخم کو فوری طور پر صابن اور پانی سے اچھی طرح دھوئیں ۔ اگرجراثیم کش لکوڈ موجود ہو تو اس سے اچھی طرح زخم صاف کریں ۔ زخم کو ٹانکوں یا پٹی کی مدد سے بند نہ کریں بلکہ کھلا رہنے دیں ۔ اگر خون زیادہ بہہ رہا ہو تو صرف ڈھیلی سی پٹی کر دیں تاکہ خون رُک جائے اور متاثرہ شخص کو فور ی طور پر قریبی اسپتال پہنچادیں۔
عام تصور یہ بھی کیا جاتا ہے کہ کاٹنے والے کتے کو ہم دس بارہ دن تک دیکھیں ، اگر وہ مرجائے تب ویکسین لگوائیں اور اگر وہ نہ مرے تو نہ لگوائیں۔ یہ تصوربالکل غلط ہے ۔ متاثرہ شخص کو دس دن سے پہلے تین حفاظتی ٹیکوں کا کورس ضرور کروادینا چاہیے تاکہ متاثرہ شخص اس جان لیوا بیماری سے محفوظ رہ سکے۔ اگر کاٹنے والے کتے کی نگرانی نہیں کرسکتے تو پھر رے بیز سے بچاؤ کے پانچ ٹیکوں کا مکمل کورس کروانا انتہائی ضروری ہے ۔ رے بیز سے بچاؤ کی ویکسین ''ویروریب ۔۔(Vero Rab) کے نام سے مارکیٹ میں باآسانی دستیاب ہے اور اس کے صرف پانچ ٹیکے کاٹنے سے پہلے دن ، تیسرے دن ، ساتویں دن ، چودھویں دن اور اٹھائیسویں دن بازو میںلگتے ہیں ۔ یہ ویکسین نتائج کے اعتبار سے بہترین ہے ۔ ہمارے ملک کے کچھ اسپتالوں میں آج بھی 14 انجکشن پیٹ میں لگائے جاتے ہیں جو پرانا طریقہ علاج ہے اور عالمی ادارہئ صحت (WHO) نے اسے ممنوع قرار دے دیا ہے ۔ رے بیز کی ویکسین کے ساتھ ساتھ رے بیز امینو گلو بیولین (RIG) بھی لگوانا بے حد ضروری ہے ۔ اس سے متاثرہ شخص کو فوری طور پر رے بیز وائرس کے خلاف قوتِ مدافعت حاصل ہوجاتی ہے او روائرس کو متاثرہ جگہ سے ختم کرنے میں آسانی ہوتی ہے ۔ 
دنیابھر میں رے بیز کا یا تو خاتمہ کیا جاچکا ہے یا وہ اپنے زوال پر ہے ، خاص طور پر شمالی امریکہ اور یورپ بلکہ ایشیاء کے کچھ اعلیٰ معیارات کے حامل ممالک بھی اس کی دسترس سے دور ہورہے ہیں جس کے نتیجے میں تھائی لینڈ، سری لنکا ، کوریا اور ویت نام میں ہر سال رے بیز کا شکار ہونے والے افراد کی تعداد چند ایک تک محدود ہوکر رہ گئی ہے ۔ دنیا بھر میں اس جان لیوا مرض میں بدقسمتی سے دو ممالک پاکستان اور بھارت اہم کردار ادا کررہے ہیں ۔ اس افسوسناک صورتحال کی بڑی وجہ مرض اور اس کے علاج سے لا علمی کے ساتھ ان مریضوں کا غلط رویہ ہے ، جو علاج کے لئے گھریلو ٹوٹکے یا متبادل ادویہ استعمال کرتے ہیں۔ 
اس تمام صورتحال کے تناظر میں یہ ضروری ہے کہ این آئی ایچ ''نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ'' جدید تجربہ گار کے قیام کے ساتھ تربیت یافتہ سائنسدانوں کا بھی تقرر کرے اور کوالٹی کنٹرول کے مفصل اور جامع طریقہ کار کا بھی اطلاق کرے۔ انہیں بین الاقوامی اعلیٰ معیار کی تیاری کی سطح تک پہنچنا چاہیے ، اگر تھوڑی سی توجہ دی جائے اور کچھ قابل عمل پروگرام مرتب کیے جائی تو دیگر ممالک کی طرح جیسا کہ ملائیشیانے کتوں کی آبادی پر قابو اور ویکسی نیشن کو لازمی قرار دے کر اس بیماری سے اپنے ملک کو نجات دلادی ہے ۔ تھائی لینڈ کی وسیع سرحد سے اس مرض کا خاتمہ ہوچکا ہے ، پاکستان بھی اس موذی بیماری سے نجات حاصل کرنے والے ممالک میں شامل ہوسکتا ہے ۔ اگرکتے کے کاٹے کا ابتداء ہی میں بہتر علاج کرلیاجائے تو اس مرض پر قابو پایا جاسکتا ہے ۔ تاہم علاج میں لاپروائی کی صورت میں بھیانک نتائج سامنے آسکتے ہیں ، جو مریض کی موت کا سبب تک بن سکتے ہیں۔‘‘
(اردو فورم سائٹ سے کاپی)
علامات:
زخم میں درد اور خارش، بخار، دو چار دنوں تک مستقل درد، پانی سے خوف (ہائیڈرو فوبیا)، روشنی یا شور برداشت کرنے میں مشکل پیش آنا۔ ہذیان (Hallucination) اور رویہ میں تبدیلی۔
احتیاطی تدابیر:

ریبیز کے سلسلے میں بطور خاص بچوں میں بیداری لانا۔ آوارہ جانوروں کے رابطے سے بچنا، گھریلو کتے کے ساتھ ساتھ آوارہ کتے کی ٹیکہ کاری، کتے پکڑنے والوں، ریبیز کے مریضوں، جانوروں سے راست رابطہ میں آنے والے میڈیکل اور پارا میڈیکل ملازمین ، سڑک پر، دیہی علاقوں میں زیادہ تر رہنے والے مسافروں کو ریبیز سے متاثر ہونے کا خطرہ زیادہ رہتا ہے، اس لیے ان سے اپنےآپ کو محفوظ رکھنا چاہئے۔ جانوروں کے کاٹنے پر اینٹی ریبیز ویکسین کے لیے فورا ڈاکٹر سے رابطہ کرنا چاہئے۔ 

Friday 22 September 2017

الزائمر (بھولنے کی بیماری) کا عالمی دن

الزائمر (بھولنے کی بیماری) کا عالمی دن
۲۱ ستمبر
ستمبر یعنی الزائمر کا مہینہ
۲۱ ستمبر کو الزائمر (Alzheimer) کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ جبکہ ستمبر کو الزائمر کا  مہینہ بھی قرار دیا گیا ہے۔الزائمر کے عالمی دن کا  اعلان ایڈن برگ میں منعقد ہونے والے الزائمر ڈیزیز انٹرنیشنل (اے ڈی آئی) کے سالانہ کانفرنس میں ۲۱ ستمبر ۱۹۹۴ کو اس کی دسویں سالگرہ منانے کے لیے کیا گیا تھا۔ تب سے یہ دن ہر سال ستمبر میں اسی تاریخ کو منایا جاتا ہے۔ ۲۰۱۲ سے پورے ستمبر کے مہینے کو الزائمر کا مہینہ بھی قرار دے دیا گیا ہے۔
اس دن کے منانے کا مقصد الزائمر (بھولنے کی بیماری) اور اس کے مریضوں کے تئیں عوام میں بیداری لانا ہے۔جبکہ پورے مہینے کو الزائمر مہینہ قرار دینے کا مقصد بھی یہ ہے کہ زیادہ  سے زیادہ دن میں اس کے تئیں بیداری لائی جائے۔ بین الاقوامی تنظیموں کے ساتھ ساتھ قومی اور مقامی سطح کی تنظیمیں بھی اس بیداری میں شرکت کرسکیں اور زیادہ سے زیادہ جگہوں اور لوگوں تک اپنے پیغام پہنچاسکیں۔  الزائمر یعنی بھولنے کی بیماری رفتہ رفتہ عالمی مسئلہ بنتا جارہا ہے۔ لہٰذا اس کے لیے عالمی سطح پر اقدام کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ چونکہ یہ  ایک سنگین مسئلہ ہے اس لیے اس کے تئیں سنجیدہ کوششیں بھی ہونی چاہئیں۔
الزائمر ایک عصبی بیماری ہے جس میں  میں دماغ کے خلیات ناکارہ ہوتے چلے جاتے ہیں۔اس کے نتیجے میں یاد داشت میں کمی،  رویہ میں بدلاؤ اور بے ضابطگی اور سوچنے کی صلاحیت کم ہوتی چلی جاتی ہے۔اس کی سب سے واضح شکل کو ڈیمنشیا (Dementia) کہتے ہیں۔اس کو بھولنے کی بیماری بھی کہہ سکتے ہیں۔ اس مرض کے شکار مریض شناساؤں کے نام، پتہ، سڑکوں اور دیگر چیزوں کے نام بھول جاتے ہیں۔ یہ بھولنے کی ہلکی عادت  سے شروع ہوتی ہے اور مسلسل بڑھتے ہوئے انتہا کو پہنچ جاتی ہے۔
  ۱۹۰۶ میں جرمن کے نیورو لوجسٹ (ماہر امراض اعصاب) الوئیس الزائمر نے اس بیماری کی دریافت کی تھی اور انہی کے نام پر اس بیماری کو الزائمر (Alzheimer) کا نام دیا گیا۔ عام طور پر الزائمر ضعیف لوگوں میں ہوتی ہے لیکن کم عمر کے لوگوں میں بھی یہ بیماری پائی گئی ہے۔ اب تک اس بیماری کا کوئی کامیاب علاج دریافت نہیں کیا جاسکا ہے لیکن اس کے لیے کچھ احتیاط اور ورزش  اور سماجی وذاتی سرگرمیوں اور مصروفیات قسم کی تدابیر اختیار کر کے اس کو کم کیا جاسکتا ہے۔
علامات:
یاد داشت میں کمی یا بھولنا(جو روز مرہ کی زندگی کو متاثر کرتا ہے)، مسائل کو سلجھانے میں ناکامی، گھر، کام جگہوں یا کسی بھی کام کو جانی پہچانی جگہوں پر بھی پورا کرنے میں دشواری کا سامنا کرنا، وقت یا جگہ کے بارے میں وہم کا پیدا ہونا، کسی جگہ کی تصویر یا مقامی رشتوں کو سمجھنے میں دشواری پیش آنا، لفظ کی ادائیگی یا لکھنے میں نئی طرح کی دشواری کا سامنا، چیزوں کو گھر یا باہر کہیں  محفوظ جگہ پر بھی رکھ دینا اور بھول جانا اور اس کو تلاش کرنے میں پریشان ہونا، غلط فیصلہ لینا یا فیصلہ لینے کی صلاحیت میں کمی، کام یا سماجی سرگرمیوں سے فرار اور مزاج اور شخصیت میں تبدیلی۔ الزائمر کے مریض اکثر اپنے گھر کے افراد اور قریبی رشتہ داروں کے نام بھی بھول بھول جاتے ہیں۔ کبھی کبھی تو خود اپنا نام بھی انہیں یاد نہیں رہتا ہے۔ حالانکہ ان میں سے کچھ علامتوں  سے انسان یوں بھی دوچار ہو جاتا ہے۔ لیکن یہ اگر عادت ہو جائےتو گھر کے لوگوں کو اس پر توجہ دینی چاہئے۔
احتیاطی تدابیر
جسمانی، ذہنی، سماجی اور پر لطف سرگرمیوں میں  خود کو مصروف رکھنا، پڑھنا، (مسرت کے حصول کے لیے) کچھ کچھ لکھنا ، آلات موسیقی بجانا، تدریسی امور میں شرکت کرنا، گھر کے اندر کے کھیلے جانے والے کھیلوں میں مصروف رہنا، تیراکی کرنا، گروپ کے ساتھ کھیلنا، گھومنا، عبادت میں مصروف رہنا ، گھر کے کاموں میں ہاتھ بٹانا،افراد خانہ کے ساتھ بیٹھ کر بات چیت کرنا، سماج میں ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک رہنا وغیرہ۔  ان سب کا مقصد مریض کو زیادہ سے زیادہ مصروف رکھنا ہے ۔ اس لیے ایک بہتر طریقہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ سماج کے لیے کئے جانے والے فلاحی کاموں میں رضاکارانہ طور پر شرکت کر وائی جائے۔ مثلا اگر بچوں کو پڑھا سکتا ہے تو ایسے بچوں کو تعلیم دینا جو غربت کے سبب تعلیم حاصل نہیں کر رہے ہیں۔ تعلیم بالغان میں حصہ لینا۔ خود پڑھا لکھا نہیں ہے تو کسی کی مدد سے پڑھنا لکھنا سیکھنا،اسپتالوں میں مریض کی دیکھ بھال اورکمزوروں اور بے سہارا لوگوں کے کچھ کام انجام دے دینا وغیرہ سماجی سرگرمیاں انجام دلوائی جاسکتی ہیں۔
غیر اختیاری اسباب:
عمر، خاندانی (خاندان میں اگر کسی کو یہ مرض رہا ہو تو اس کا اس کے لاحق ہونے خطرہ بنا رہتا ہے) اور  مخصوص قسم کا  جین  وغیرہ ۔
قابل علاج:
فساد خون : مثلا ذیابیطس، کولیسٹرول میں اضافہ، بلڈ پریشر کا بڑھنا( یہ اسباب اسٹروک کے خطرہ کی طرف لے جاتے ہیں جو خود ایک دوسری قسم کی ڈیمنشیا کے اسباب ہیں)، تعلیمی اور پیشہ ورانہ حصولیابیوں کی کمی کبھی سرکا چوٹ: نیند کی بے ضابطگی اور سر کا چوٹ وغیرہ ۔
عالمی یوم الزائمر اورالزائمر کے مہینے کے موقع پر اے ڈی آئی  کے کوآرڈی نیٹرس دنیا بھر میں اپنے ممبران اور دیگر تنظیموں کو اس دن تقریبات منعقد کرنے کے لیے حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ ۲۰۰۹ میں اے ڈی آئی نے پہلی الزائمر رپورٹ پیش کی تھی اور ہر سال اضافی رپورٹ پیش کی جاتی ہے۔
اس دن ہمیں چاہئے کہ تقریبات کا انعقاد کر کے لوگوں  میں اس کے شکار مریضوں کے تئیں بیداری لائیں۔ اے ڈی آئی کو عطیہ دے کر بھی اپنی شمولیت درج کرائی جاسکتی ہے۔
ہم اپنے گھروں میں آس پاس اور سماج میں اکثر ایسے بوڑھے لوگوں کو پاتے ہیں جو گھروں میں سامان کو ادھر ادھر رکھ اٹ پٹی سی حرکت کرتے رہتے ہیں۔بات بات کرتے بھول جاتے ہیں۔ بات کرتے کرتے کہیں سے باتوں میں بہک جاتے ہیں۔ ایسے وقت گھر کے لوگ پریشان ہوجاتے ہیں اور کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ گھر کے لوگ ان کو ایسی حرکت پر ڈانٹ ڈپٹ سے کام لیتے ہیں یا ان کو نظر انداز کرنے لگتے ہیں۔ ایسے لوگوں سے کو الگ تھلگ رکھتے ہیں یا خود الگ تھلگ ہوجاتے ہیں۔ان کا مذاق اڑاتے ہیں۔ حالانکہ  ہمیں چاہئے کہ ایسے لوگوں   کے ساتھ ہمدردی سے پیش آئیں اور ان کے مسئلہ کو سمجھنے کی کوشش کریں ۔ساتھ ہی جو لوگ ایسا کرتے ہیں انہیں بھی اسے بیماری بتاتے ہوئے ان لوگوں کے ساتھ ہمدردی رکھنے کی اپیل کریں۔ چیزوں کو ڈھونڈنے میں ان کی مدد کریں۔ ان کے ساتھ بیٹھ کر بات چیت کریں۔ بات کرتے کچھ بھول جائیں تو ہم انہیں یاد دلائیں ۔

یاد رکھئے! یوں تو کوئی بھی بیماری کسی کو بھی لاحق ہوسکتی ہے۔ یہ بیماری جو عام طور پر بڑھاپے میں بیشتر لوگوں کو لاحق ہوتی ہے۔ ہمیں بھی اس عمر سے گزرنا ہے۔ آج ہم ان کا مذاق اڑا رہے ہیں۔ ان کے ساتھ ہمارا رویہ اچھا نہیں ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم بوڑھے ہوں تو ہمیں اس سے زیادہ لوگوں کے برے رویے کا سامنا کرنا پڑے۔ یوں بھی سوشل میڈیا نے لوگوں کو سماجی زندگی سے ہی نہیں گھر کی زندگی سے بھی کاٹ کر رکھ دیا ہے۔ ہم ساری دینا سے آن لائن ہیں اور گھر میں آف لائن۔ آنے والے دنوں میں گھر کے ضعیف اور بوڑھے افراد کو آج سے زیادہ برا دن دیکھنا ہوگا ۔ اس میں تنہائی کی زندگی سب سے بڑی مصیبت ہوگی۔

Sunday 17 September 2017

World Ozone Day

عالمی یوم اوزون(World Ozone Day)
(بین الاقوامی دن برائے تحفظ سطح اوزون)
۱۶ ستمبر
اوزون کی سطح کے تحفظ کے قوام متحدہ نے ۱۶ ستمبر کو بین الاقوامی دن برائے تحفظ سطح اوزون قرار دیا ہے۔ یہ دن ۱۹۸۷ کے اس دن کا یادگار ہے جس دن اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں مونٹریل پراٹوکول برائے تحفظ سطح اوزون (  Montreal Protocol on Substances that Deplete the Ozone Layer')  پر دستخط کیا گیا تھا۔اس دن کو یادگار بنانے کے لیے ۱۹؍ دسمبر ۱۹۹۴ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ۱۶ ستمبر کو عالمی یوم اوزون  منانے کا اعلان کیا۔ تاکہ لوگوں کو اوزون میں سوراخ ہونے کے سبب زمین پر آنے والی الٹرا وائلٹ شعاعوں کو روکنے کے لیے لوگوں میں بیداری لایا جاسکے۔  اس سے قبل یہ دن ۱۹؍ دسمبر کو ہی منایاجاتا تھا۔
اس دن کا مقصد اوزون لیئر کے تحفظ کے تئیں لوگوں میں بیداری لانا اور اس میں پیدا ہونے والے مسائل کا حل تلاش کرنا ہے۔ اس دن لوگوں کو چاہئے کہ ایک ساتھ بیٹھ کر اوزون کے مسئلہ پر بات چیت ؍ سیمینار ؍ سمپوزیم کا انعقاد کریں۔ تعلیم گاہوں میں طلبہ کے درمیان خصوصی تقریب کا انعقاد کیا جائے۔
اوزون کی تہہ زمین کے  کرہ باد میں ایک تہہ ہے جس میں اوزون گیس کی حد نسبتا زیادہ ہے. یہ 'O3' سے ظاہر ہوتی ہے. یہ تہہ سورج سے بڑی مقدار میں نکلنے والی الٹر وائلٹ شعاعوں کو کی بیشتر مقدار کو جذب کرلیتی ہے جو زمین پر زندگی کے لیے خطرناک ہے۔
’’اوزون آکسیجن کے تین ایٹمز پر مشتمل زمین کے گرد ایک شفاف اور نظر نہ آنے والی تہہ ہے۔ اوزون کی نوے فیصد مقدار زمین کی سطح سے پندرہ تا پچپن کلومیٹر اوپر بالائی فضا میں پائی جاتی ہے۔ یہ تہہ سورج کی خطرناک الٹراوائلٹ شعاعوں کو زمین تک آنے سے روکتی ہے۔ 1970ء کی دھائی میں انکشاف ہوا کہ انسانوں کے بنائے ہوئے کچھ کیمیکلزسے اوزون کی تہہ کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ یہ کیمیائی مرکبات کلوروفلور وکاربن(سی ایف سی) کہلاتے ہیں۔ ان کا استعمال اے سی اور ریفری جریٹرز میں کیا جاتا ہے۔ اوزون تہہ میں شگاف کے باعث الٹرا وائلٹ شعاعیں زمین پر پہنچ جاتی ہیں جو کئی جلدی امراض کا باعث بنتی ہیں۔ اس کے علاوہ یہ شعاعیں ماحولیاتی تبدیلیوں کا باعث بھی بن رہی ہیں۔ ماہرین کے مطابق اوزون کی تہہ کے خاتمے کی صورت میں زمین کے درجہ حرارت میں خطر ناک حد تک اضافہ ہو جائے گا اور گلیشئر ز کی برف پگھلنے سے ساحلی شہر زیر آب آجائیں گے۔ ‘‘
اوزون کے تحفظ کے لیے ضروری ہے کہ ہم ایسی مصنوعات پر کنٹرول کریں جن سے اوزون کو خطرہ لاحق ہے۔ اس سے نہ صرف اوزون کا تحفظ ہوگا بلکہ ماحولیاتی تبدیلی کے مسائل پر قابو پانے میں ہمیں مدد ملے گی۔


Engineer’s Day

یوم انجینئرس(Engineer’s Day)
15سمتبر

ہندوستان میں ۱۵ ستمبر کو ہر سال یوم انجینئرس منایا جاتا ہے۔ یہ دن ہندوستان کے ایک عظیم انجنیئر بھارت رتن سر موکشاگنڈم وسوسورایا(Mokhshagudam Visvevraya) کا یوم پیدائش ہے۔ ان کی پیدائش کرناٹک کے موڈینا ہلی کنیوینارا بایوراس میں ہوئی ہے۔ انہوں نے میسور کے پا س کاویری ندی پر تعمیر ہونے والے کرشن راجا ساگر کی تعمیر میں چیف انجنیئر کی حیثیت بڑی خدمات انجام دیں۔ انہوں نے بامبے پریزیڈنسی (مہاراشٹر) میں کئی ڈیم بھی تیار کئے۔ ان کے ذریعہ بنائے ڈیم اب بھی کئی ڈیم استعمال میں لائے جا رہے ہیں۔ ہندوستان نے ۱۹۵۵ میں ملک کا سب سے بڑ شہری ایوارڈ بھارت رتن سے نوازا۔۱۲ اپریل ۱۹۱۲ کو ان کا انتقال ہو گیا۔ یہ دن ان کے لیے ایک خراج عقیدت ہے اور ان کی علمی صلاحیتوں، مہارت، ایماندارانہ کوششوں اور اپنے کام کے  تئیں والہانہ لگاؤ کی یادگار ہے۔ اس دن قومی سطح کے انجنیئرنگ اداروں میں تقریبات کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ 

Thursday 14 September 2017

World Suicide Prevention Day

عالمی یوم انسداد خود کشی
۱۰ ستمبر
عالمی یوم انسداد خود کشی (World Suicide Prevention Day)۱۰ ستمبر کو پوری دنیا میں منایا جاتا ہے۔ یہ عالمی سطح پر خود کشی کے رجحان کو روکنے اور کم کرنے کے لیے  لوگوں میں بیداری لانے کی غرض سے ۲۰۰۳ ء سے منایا جاتا ہے۔ عالمی انجمن برائے انسداد خود کشی (International Association for Suicide Prevention) ،عالمی تنظیم صحت (WHO)اور عالمی اتحاد برائے ذہنی صحت (World Federation for Mental Health) کے اشتراک سے عالمی یوم انسداد خود کشی کو منایا جاتا ہے۔ ۲۰۱۱ میں اس دن کو منانے کے لیے ۴۰ ممالک میں بیداری لانے کا ہدف متعین کیا گیا تھا۔ اقوام متحدہ نے ۱۹۹۰ میں انسداد خود کشی کے لیے قومی پالیسی جاری کیا تھا جس کو چند ممالک اپنے یہاں خود کشی کی بنیادی پالیسی کے طورپر تسلیم کرتے ہیں۔
ایک اندازے کے مطابق ۲۰۱۱ میں پورے سال میں ایک ملین لوگوں نے خود کشی کرکے اپنی جان دے دی اس طرح ہر ۴۰ سکینڈ پر ایک موت یا روزانہ تین ہزار اموات کی شرح درج کی گئی ہے۔ خودکشی ۱۵-۲۴ سال کی عمر کے لوگوں کی موت کا بنیادی سبب ہے۔ عالمی سروے کے مطابق لوگوں کی موت ۱۳ واں بڑا سبب ہے۔ ڈبلیو ایچ او کے مطابق دنیا بھر میں تشدد کے سبب موت کا نصف خود کشی کے سبب سے ہوئی موت ہے۔ برین مشرا صدر آئی اے ایس پی کا کہنا ہے کہ تمام جنگوں، دہشت گردانہ کارروائیوں، داخلی تشدد میں جنتی اموات ہوتی ہیں اس سے زیادہ لوگ اپنے آپ کو موت کے گھاٹ اتار لیتے ہیں۔ ایک سروے کے مطابق ۲۰۲۰ تک خود کشی سے مرنے والوں کی تعداد 1.5 ملین ہوجائے گی۔
زہریلی دوائیں، پھانسی، چھت سے چھلانگ لگانا، ٹرین کے آگے سوجانا اور اپنے آپ کو گولی مار لینا خود کشی کے عام طریقے ہیں۔
خوکشی کو روکنے کے کیا جاسکتا ہے؟
جس شخص کے بارے میں آپ کو تشویش یا خطرہ لاحق ہے اس سے خود کشی کے بارے میں بات کریں۔ اس کی باتوں اور مسائل کو سنجیدگی سے سنیں۔
ایسا شخص جس پر اعتماد کرتا ہوں جیسے خاندان کے افراد اور دوست ، استاد یا کوئی بھی اس سے ربط بڑھانے کی حوصلہ افزائی کریں۔ اور ماہر ڈاکٹر اور نفسیات کے ماہرین سے مشورہ لیں۔
جس پر خطرہ لاحق ہو اس کو تنہا نہ چھوڑیں اور فورا اس کے قریبی لوگوں کو اس کی اطلاع دیں۔
اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ ایسے شخص کے پاس اپنے آپ کو نقصان پہنچانے والی اشیا مثلا زہر، پستول، بندوق وغیرہ نہیں ہیں۔ زندگی کو نقصان پہنچانے والی تمام چیزوں سے اس کو دور کرنے کی کوشش کی جائے۔
ہمیشہ اس کے رابطے میں رہا جائے۔
ایسے لوگوں کو پیار اور محبت سے زندگی کا احساس دلایا جائے۔ جس چیز سے اس میں زندگی کے تئیں مایوسی پیدا ہوئی اس تعلق سے مثبت راستوں پر اس سے بات کی جائے۔ اس پر کوئی زور زبردستی نہ کی جائے بلکہ پیار ومحبت کے ساتھ اس سے سلوک رکھاجائے۔


Hindi Day

یوم ہندی
۱۴ ستمبر
ہندی ہماری قومی زبان ہے۔ ۱۴؍ ستمبر کو ہر سال ملک بھر میں یوم ہندی منایا جاتا ہے۔ یہ دن اس لیے منتخب کیا گیا کہ ۱۴ ستمبر ۱۹۴۹ کو دستور ہند کمیٹی نے متفقہ رائے سے ہندی کو ہندوستان کی قومی زبان قرار دیا۔ اس فیصلہ کو عملی جامہ پہنانے اور مشتہر کرنے کے لیے قومی زبان اشتہاری کمیٹی وردھا کے مطابق ۱۹۵۳ سے ۱۴ ستمبر کو ہر سال یوم ہندی منایا جاتا ہے۔
گاندھی جی نے ۱۹۱۸ میں ہندی ساہتیہ سمیلن میں ہندی  کو عوام کی زبان قرار دیتے ہوئے  اسے  قومی زبان بنانے کی تجویز پیش کی تھی ۱۴ ستمبر ۱۹۴۹ کو قومی زبان کے سوال پر ہوئے اختلاف کے بعد بڑے غور و خوض کے بعد ہندی کو قومی زبان بنانے کا فیصلہ لیا گیا جو آئین ہند کے حصہ ۱۷ کے باب ۱؍ کی دفعہ(۱) ۳۴۳ میں بیان کیا گیا ہے:
’’یونین کی سرکاری زبان ہندی اور رسم الخظ ہندی ہوگا۔ یونین کے سرکاری اغراض کے لیے استعمال کئے جانے والوں ہندسوں کی شکل بین الاقوامی ہوگی۔ ‘‘
یوم ہندی کے موقع پر مختلف طرح کی تقریبات منعقد کی جاتی ہیں۔ اس دن طلبہ وطالبات کو قومی زبان ہندی کو احترام دینے اور روز مرہ کی زندگی میں ہندی کو استعمال میں لانے کی تعلیم دی جاتی ہے جس میں ہندی میں مضمون نویسی، ڈبیٹ، ہندی ٹائپنگ؍ کمپوزنگ کے مقابلے ہوتے ہیں۔مضمون نویسی میں ہندی کی ترقی اور اس کو عام کرنے کے لیے لوگوں سے مشورے بھی طلب کئے جاتے ہیں۔
اس دن کے منانے کا مقصد لوگوں میں ہندی کے تئیں یہ بیداری لانا ہے جب تک وہ ہندی کا استعمال مکمل طریقے سے نہیں کریں گے تب تک ہندی زبان کی ترقی نہیں ہوسکتی ہے۔ اس دن تمام سرکاری دفاتر میں ایک دن انگریزی کی جگہ صرف ہندی میں کام کرنے کا مشورہ دیاجاتا ہے۔
۱۴ ستمبر کو قومی زبان ہفتہ ؍ ہندی ہفتہ کی شروعات بھی کی جاتی ہے اور اس پورے ہفتے میں الگ الگ طرح کے مقابلوں کا انعقاد کیاجاتا ہے۔
یوم ہندی پر ہندی کے تئیں لوگوں کو رغبت دلانے کے لیے بھاشا سمان (اعزاز زبان) کی شروعات کی گئی۔ یہ اعزاز ہر سال ملک کے ایسی شخصیت کو دیا جاتا ہے جس نے عوام میں ہندی زبان کے استعمال اور فروغ میں اہم رول ادا کیا ہے۔ ۔پہلے یہ انعام کسی سیاسی لیڈر کے نام پر دیاجاتا ہے لیکن اب  اس کا نام ’’راج بھاشا کرتی پرسکار‘‘ اور ’’راج بھاشا گورو پرسکار ‘‘ کردیا گیا ہے۔
راج بھاشا گورو پرسکار:  
راج بھاشا گورو پرسکار تکنیکی یا سائنس کے موضوع پر لکھنے والے کسی بھی ہندوستانی شہری کو دیا جاتا ہے۔ اس کے تحت دس ہزار سے دو لاکھ روپے تک کے تیرہ انعامات دیئے جاتے ہیں۔ اول انعام دو لاکھ (2,00,000)، دوئم انعام ڈیڑھ لاکھ (1,50,000)اور سوئم انعام پچھتر ہزار  (75,000) روپے دیئے جاتے ہیں۔ جبکہ دس افراد دس دس ہزار روپے حوصلہ افزا انعام بھی دیئے جاتے ہیں۔ انعام پانے والی شخصیات کو مومنٹو بھی دیا جاتا ہے۔ اس انعام کا مقصد تکنیک اور سائسنس کے شعبہ میں ہندی زبان کو فروغ دینا ہے۔
راج بھاشا کرتی پرسکار:
اس کے تحت کل انتالیس انعامات دیئے جاتے ہیں۔ یہ انعام کسی کمیٹی، شعبہ اور گروپ کو ہندی کے لیے قابل ذکر خدمات انجام دینے پر دیا جاتا ہے۔ اس کا مقصد سرکاری دفاتر میں ہندی زبان کے استعمال کو فروغ دینا ہے۔