Tuesday 14 November 2017

یوم اطفال

یوم اطفال
(Children's day)
۱۴ نومبر
بیاد پنڈت جواہر لال (چاچا) نہرو

ہندوستان میں ہر سال ۱۴ نومبر کو یوم اطفال منایا جاتا ہے۔ یہ دن ہندوستان کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو کے یوم پیدائش کی یاد گار ہے۔ پنڈت جواہر لال نہرو کو بچوں سے بہت لگاؤ تھا وہ بچوں سے بہت پیار کرتے تھے  اور ان کے درمیان رہنا انہیں پسند تھا۔ اسی محبت کے سبب بچے بھی انہیں چاچا نہرو کہا کرتے تھے۔ یوم اطفال بچوں کے تئیں پنڈت جواہر لال نہرو کی اسی بے پناہ محبت اور لگاؤ کی یاد گار ہے۔
اس دن کے منانے کا مقصد بچوں کے تئیں لوگوں میں پیار و محبت  کے جذبات کو فروغ دینا اور ان کے حقوق کے تئیں والدین، اساتذہ اور بڑی عمر کے لوگوں میں بیداری لانا ہے۔
پنڈت جواہر لال نہرو نے ملک کی آزادی کے بعد بچوں اور جوانوں کی تعلیم، ان کی ترقی اور فلاح و بہبود کے لیے کئی اہم خدمات انجام دیں۔ انہوں نے جوانوں کی تعلیم کے لیے کئی اہم ادارے مثلا انڈین انسٹی چیوٹ آف ٹیکنالوجی، آل انڈیا انسٹی چیوٹ آف میڈیکل سائنس اور انڈین انسٹی چیوٹ آف مینجمنٹ کی بنیاد ڈالی۔ انہوں نے پنچ سالہ منصوبے میں مفت پرائمری تعلیم کو شامل کیا اور اسکولی بچوں کو سوئے تغذیہ سے بچانے کے لیے مفت دودھ فراہم کرنے کی تجویز رکھی۔
بچپن انسان کی زندگی کے سب سے اہم ایام ہیں۔ یہ انسان کی زندگی کی وہ بنیاد پر جس اس کے مستقبل کی تعمیر ہوتی ہے۔ اس لیے وہ اس بات کے حقدار ہیں کہ ان پر خصوصی توجہ دی جائے تاکہ ان کا مستقبل تابناک ہوسکے۔ یہ بچے محض اپنے والد ین کی اولاد نہیں بلکہ ملک کا سرمایہ بھی ہیں اور ان کی ترقی پر ہی ملک کی ترقی کا انحصار ہے۔ اگر بچپن کے ایام میں ان کی صحیح رہنمائی نہیں کی گئی ان کی زندگی تباہ ہوسکتی ہے ۔ ایسے میں والدین کے ساتھ پوری سوسائٹی اور حکومت کی ذمہ داری ہے کہ انہیں معیاری تعلیم فراہم کرکے، ان کی صحیح تربیت کر کے انہیں  ترقی کی راہ پر گامزن کیا  جائے۔
پنڈت جواہر  لال ہندوستان کی جنگ آزادی کے اہم قائدین اور رہنما میں شامل رہے اور ۱۹۴۷ میں ملک کی آزادی کے بعد پہلے وزیر اعظم منتخب ہوگئے۔ ان کی پیدائش ۱۴ نومبر ۱۸۸۹ کو الٰہ آباد میں ہوئی۔ ان کے والد مشہور وکیل موتی لال نہرو اور والدہ سوروپ رانی تھیں۔ وہ بچپن سے بڑے ذہین نے تھے۔ اس لیے ان کے والدین نے ان کا نام جواہرلال رکھا۔ انہوں نے اعلی تعلیم انگلینڈ میں حاصل کی اور وہاں سے لوٹنے کے بعد جنگ آزادی میں شامل ہوگئے۔ وہ ایک اچھے مصنف اور شاعر بھی تھے ۔ گلائمپس آف ورلڈ ہسٹری اور ڈسکوری آف انڈیا ان کی مشہور کتابیں ہیں۔

۱۴ نومبر کو اسکول، کالجوں، تعلیمی اداروں اورمختلف رفاہی تنظیموں کی جانب سے یوم اطفال کی خصوصی تقریبات کا اہتمام کیا جاتا ہے جس میں ثقافتی پروگرام پیش کیے جاتے اور مختلف طرح کے مقابلوں کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ بچوں کے درمیان پیار و محبت کے جذبہ کا اظہار کرنے کے لیے  بڑوں کی جانب سے ان کے درمیان تحفے اور چاکلیٹ تقسیم کیے جاتے ہیں۔ کئی تنظیمیں غریب اور یتیم بچوں کے درمیان کپڑے، کھلونے ، اسٹیشنری ، کتابیں وغیرہ تقسیم کرکے ان کی حوصلہ افزائی کرتی ہیں۔ 

Friday 10 November 2017

قومی یوم تعلیم

قومی یوم تعلیم
۱۱ نومبر
بیاد مولانا ابوالکلام آزادؒ
گیارہ (۱۱)  نومبر کو ہر سال ہندوستان میں قومی یوم تعلیم منایا جاتا ہے ۔یہ دن ہندوستان کی جنگ آزادی کے ایک عظیم قائد  و رہنما، متبحر عالم دین، بے مثال دانشور اور اسکالر اور ہندوستان کے پہلے وزیر تعلیم مولانا ابو الکلام آزادؒ کے یوم پیدائش کی یاد گار ہے۔ستمبر ۲۰۰۸ میں وزارت ترقی انسانی وسائل کی جانب سے یہ فیصلہ لیا گیا کہ تعلیم کے میدان میں  ملک کے اس عظیم سپوت کی  گراں قدر خدمات کی یاد گار کو باقی رکھنے اور نئی نسل کو ان سے واقف کرانے کے لیے ہر سال ۱۱ نومبر کو قومی یوم تعلیم کے طور پر منایا جائے گا ۔ تب سے ہر سال اس دن کو پورے ملک میں قومی یوم تعلیم کے طور پر منایا جاتا ہے۔
                اس دن کے منانے کا مقصد تعلیمی اداروں کو مضبوط ومستحکم بنانے اور ملک میں معیاری تعلیم کو فرو غ دینے کا عزم مصمم کرنے کے  ساتھ ساتھ آزاد ہندوستان میں تعلیم کی بنیاد کو مضبوط کرنے میں مولانا آزاد کی خدمات کو ناقابل فراموش بنانا، موجودہ تعلیمی کار کردگی کا جائزہ لینا  اور جدید ہندوستان کی تعمیر میں تعلیم کے شعبے میں مولانا کی عظیم خدمات کو  خراج تحسین پیش کرنا ہے۔
قومی یوم تعلیم کے موقع پر اسکولوں ، کالجوں  اور یونیورسٹیوں سمیت تعلیمی اداروں میں تعلیمی موضوعات پر مذاکرہ، سیمینار، سمپوزیم کے ساتھ تقریری و تحریری مقابلے اور دیگر قسم کے ثقافتی پروگرام منعقد کیے جاتے ہیں۔ کئی علمی و ادبی تنظیمیں بھی اس دن پروگراموں کا انعقاد کر کے ان کی علمی و ادبی، تعلیمی اور قائدانہ خدمات کا اعتراف کر کے خراج تحسین پیش کرتی ہے۔
                مولانا ابو الکلام آزاد کا نام محی الدین احمد تھا اور والد نے  فارسی کے مصرعے      ع
’’جواں بخت و جواں طالع ، جواں باد‘‘
سے ہجری سن کا استخراج کرتے ہوئے تاریخی نام ’’فیروز بخت‘‘ رکھا تھا۔ مولانا آزاد نے اپنی کتاب ’ تذکرہ‘‘ میں محی الدین کی جگہ اپنا نام صرف احمد لکھا ہے۔ ابو الکلام آزاد ان کی کنیت تھی۔ ان کی پیدائش ایک معزز گھرانے میں مکہ (سعودی عرب)میں ہوئی جہاں ان کے والد ۱۸۵۷ کی پہلی جنگ آزادی کے بعد ہجرت کر گئے تھے۔ ان کی  تاریخ پیدائش کی وضاحت کہیں موجود  نہیں ہے۔ مولانا نے اپنی کتاب ’’تذکرہ‘‘ میں ۱۸۸۸ مطابق ذو الحجہ ۱۳۰۵ھ درج کی ہے۔  مالک رام نے اپنی تحقیق سے ثابت کیا ہے کہ ۱۸۸۸ء میں ذی الحجہ کا مہینہ ۹؍ اگست سے ۶ ستمبر کے درمیان تھا۔ اس طرح تاریخ پیدائش میں ماہرین کے درمیان بڑا اختلاف پایا جاتا ہے۔ تمام مباحث کا نتیجہ یہی ہے کہ ۹ ؍اگست سے ۶ ؍ستمبر کے درمیان ان کی تاریخ پیدائش ہے۔  بہر حال حکومت کے ذریعہ ۱۱ نومبر ۱۸۸۸ ءکو مولانا  کی تاریخ پیدائش تسلیم کرتے ہوئے اسی تاریخ کو ’’قومی یوم تعلیم‘‘ قرار دیا گیا ہے۔
                حالانکہ جس طرح کئی مسائل اور موضوعات پر  دن کے انعقاد کی جگہ ہفتے اور مہینوں کی مہم چلائی جاتی ہے اور فلاں ہفتہ اور فلاں مہینہ قرار دیا جاتا ہے ،اسی طرح ۹ اگست سے ۶ ستمبر تک کو ’’ماہ تعلیم‘‘ بھی قرار دیا جاسکتا ہے۔ موجودہ وقت میں تعلیم کی جو صورتحال ہے اس میں اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ اس پر سنجیدگی میں اضافہ کیا جائے اور ’’یوم تعلیم‘‘ کی جگہ ’’ماہ تعلیم‘‘ قرار پائے اور اس کی مہم چلائی جائے۔
یہاں یہ  بات بھی کہی جاسکتی ہے کہ قومی یوم تعلیم حکومت کی ایک رسمی کارروائی ہے جو ہوتی ہے اور ہوا کرے ۔ ہم اس کے لیے حکومت کے شکر گزار ہیں کہ اس نے مولانا آزاد کی یاد کو باقی رکھا۔ لیکن ہم مسلمان اگر اپنے طور پر یہ کوشش کریں کہ ۶ اگست سے ۹؍ ستمبر کو ماہ تعلیم قرار دے کر تعلیمی بیداری کی ایک مہم چلائیں تاکہ ہمارے معاشرے میں مزید تعلیمی بیداری آئے اور وہ بچے جو اب بھی مفلوک الحالی،  معاشی تنگی یا غفلت کے سبب تعلیم سے دور ہیں انہیں تعلیم سے جوڑ دیں تو مولانا کی یاد اور مولانا کے لیے ایک صدقہ جاریہ کا ذریعہ بھی بن سکتا ہے۔حکومت نے مختلف اسکیموں کے ذریعہ ایک ایک بچے کو تعلیم سے جوڑنے کی مہم چلا رکھی ہے اور شاید کاغذی سطح پر اب ہر بچہ کسی نہ کسی اسکول کا طالب علم بھی ہے لیکن ہم سب جانتے ہیں کہ زمینی حقائق یہ نہیں ہیں۔ ہر شہر کےکچھ محلوں میں اب بھی بچے سڑکوں پر کچڑے چنتے نظر آئیں گے اور ان کا تعلق اکثر مسلمان سے ہوتا ہے۔
مولانا آزاد کے والد کا نام مولوی خیر الدین تھا  جن کا تعلق دہلی کے ایک ممتاز علمی گھرانے سے تھا اور  والدہ کا تعلق مدینہ سے تھا۔ وہ شیخ محمد بن ظاہری وتری مفتی مدینہ کی بھانجی تھیں۔ ان کے خاندان میں علم وفضل کے حامل تین بڑے خاندان کا اجماع تھا۔ تاہم وہ اس کو عز وشرف کا ذریعہ نہیں سمجھتے تھے ۔ ان کا خیال تھا کہ ’’انسان کے لیے معیار شرف جوہر ذاتی اور خود حاصل کردہ علم وعمل ہے‘‘ اس سے خاندان پہچانا جائے نہ کہ خاندان سے انسان کی پہچان ہو۔ 
مولانا دو سال کے تھے تو ان کے والدین ہندوستان واپس آگئے۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم اپنے والد مولوی خیر الدین سے حاصل کی۔ پھر جامعہ ازہر مصر چلے گئے اور صرف ۱۴ سال کی عمر میں مروجہ مشرقی علوم کے نصاب کی تکمیل کرلی۔ جنگ آزادی کے درمیان مولانا نے سرگرم قائدانہ رول ادا کیا اور کئی مرتبہ قید اور نظر بندی کے مراحل سے بھی گزرنا پڑا۔۱۹۴۲ سے۱۹۴۵ کے درمیان وہ  جب قلعہ احمد نگر میں دیگر بڑے قائدین کے ساتھ قید میں تھے، ان کی اہلیہ زلیخا بیگم کا انتقال ہوگیا اور مولانا اپنی اہلیہ کا آخری دیدار بھی نہیں کرسکے۔مولانا نے اپنے ایک خط میں اس واقعے کا بڑے جذباتی انداز میں ذکر کیا ہے۔ ملک کے بڑے لیڈران ان کی فراست پر اعتماد اور ان کے فیصلے کا احترام کرتے تھے۔ وہ  ۱۹۲۳ اور ۱۹۴۰سے۴۶ میں انڈین نیشنل کانگریس کے صدر بھی رہے۔
                ۱۵ اگست ۱۹۴۷ کو جب ملک آزاد ہوا تو  مولانا آزاد کو  وزارت تعلیم کا قلمدان سونپا گیا جس پروہ  ۲ فروری ۱۹۵۸ تک فائز رہے۔ اس قبل جب عبوری حکومت قائم ہوئی تھی تب بھی مولانا آزاد کو وزارت تعلیم کا قلمدان ہی عطا کیا گیا تھا۔ جنگ آزادی  میں جو لوگ سرگرم اور قائدانہ کردار ادا کر رہے تھے ان میں فراست  علمی،مطالعہ کی وسعت اور  تنوع  اور مختلف مشرقی و مغربی علوم پر گرفت کے اعتبار سے مولانا کی حیثیت امتیازی تھی۔مولانا  وزارت تعلیم جیسے اہم اور سنجیدہ قلمدان  کے یقینا اہل تھے لیکن ان کا مقام اس سے بالا تر تھا۔
                مولانا آزاد کا شمار گرچہ ماہر تعلیم میں نہیں ہوتا ہے لیکن تعلیم پر ان کا مستقل اور مستحکم نظریہ تھا۔ وہ مشرقی علوم کے پروردہ ہونے کے باوجود جدید اور وقت کی متقاضی تعلیم کے حامی تھے جس کی تحریک سرسید پہلے  ہی چلا چکے تھے ۔مولانا خود بھی جن شخصیات سے متاثر تھے ان میں سرسید کی شخصیت بھی شامل ہے۔آل انڈیا خلافت کانفرنس منعقدہ کانپور ۲۹ دسمبر ۱۹۲۵ کے خطبے میں انہوں نے کہا تھا: ’’ہمارے لیے ہر حال میں مقدم کام عوام کی تعلیم ہے۔ یہی کام سب سے زیادہ ضروری ہے اور اسی کی طرف سے ہمیشہ اغماض برتا گیا ہے۔ ....... تعلیم سے مقصود وہ تعلیم ہی نہیں ہے جو قواعد اور منضبط اصول کے ذریعہ مکتبوں اور مدرسوں میں دی جاتی ہے۔ یہ تو در اصل آنے والے عہد کے لیے ہے جنہیں آج پڑھایا جارہا ہے، وہ کل کام کریں گے۔ لیکن قوم کو اس کی موجودہ حالت میں بلند کرنے کے لیے ضروری ہے کہ موجودہ نسل کی دماغی حالت اور عملی استعداد درست کی جائے۔ وقت کی تمام مشکلات کا یہی علاج ہے‘‘
   ۱۸فروری ۱۹۴۷ کو ایک پریس کانفرنس میں تعلیم پر اظہار کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا :’ صحیح طور پر آزادانہ اور انسانی قدروں سے بھرپور تعلیم ہی لوگوں میں زبردست تبدیلی کا باعث ہوسکتی ہے اور انہیں ترقی کی طرف لے جاسکتی ہے۔‘‘
 ہندوستانی کمیٹی بہار ۱۹۳۷ کے خطبے میں انہوں نے کہا تھا: ’’ہندوستان کو ایک نئی زبان سیکھنا چاہیئے اور نئے علوم و فنون کو اس کے ذریعہ سیکھ کر ترقی کے راستہ میں بڑھنا چاہئے۔‘‘
ان کے علاوہ مولانا نے مختلف مواقع پر پیش کئے گئے خطبات اور تحریروں میں بھی ان کے تعلیمی نظریات کی عکاسی ہوئی ہے۔ خطبات آزاد کے صفحہ ۲۳۰ اور ۲۶۵ پر قدرے تفصیل سے انہوں نے تعلیمی مسائل پر روشنی ڈالی ہے۔
 وزیر کی حیثیت سے وہ سنٹرل ایڈوائزری بورڈ آف ایجوکیشن کے چیرمین تھے۔ انہوں نے ملک میں تعلیمی پالیسیوں کو تشکیل دینے اور نئے اداروں کے قیام کی راہ ہموار کی تعلیم نظام کو مؤثر بنانے کی کوشش کی۔ وہ ملک میں مشرقی علوم کے ساتھ ساتھ عصری اور سائنسی علوم کو فروغ دینا چاہتے تھے اور اس کو یقینی بنانے کے لیے بحیثیت وزیر حکمت عملی تیار کی۔ البتہ مولانا آزاد کے نزدیک تعلیم کا مقصد انسان کو محض پیسے کمانے کے لائق بنانا نہیں بلکہ شخصیت کی  مکمل تعمیر  کرنا تھا جو اعلی انسانی قدروں کا حامل اور نسلی، قومی، لسانی  مذہبی جیسے تمام طرح کے تعصبات سے پاک  اور اوپر ہو۔ ان کے تعلیمی نظریات میں فرقہ وارانہ یگانگت اور قومی اتحاد کو  اہمیت حاصل ہے۔
موجودہ وقت میں جو تعلیمی  نظام  نافذ  العمل ہے اس کی مستحکم بنیاد مولانا آزاد نے ہی ڈالی تھی گرچہ ان کا جو خواب تھا اس پر تا دم ایں عمل نہیں ہوسکا اور اب اس کے ساتھ جو چھیڑ چھاڑ ہورہی ہے یہ عمل ان کے اس مخلصانہ جذبہ کے منافی ہے جس کے تحت انہوں نے دو قومی نظریے کا شدت سے اختلاف کیا تھا اور پوری طاقت سے ملک کے مسلمانوں کو پاکستان ہجرت کرنے سے روکا تھا۔ قانون حق تعلیم جو ۲۰۰۹ میں نافذ کیا گیا اس کا تصور مولانا آزاد نے بہت پہلے ہی دے دیا تھا ۔ وہ اس وقت بھی  ۶ سے ۱۴ سال تک کے بچوں کو  مفت تعلیم فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری سمجھتے تھے۔
مولانا آزاد کے عہد وزارت میں ہی موسیقی، رقص اور ڈراما کے میدان میں ملک کے قیمتی ثقافتی اثاثہ جات کو باقی رکھنے اور زیادہ سے زیادہ فروغ دینے کے لیے۳۱ مئی ۱۹۵۲ کو سنگیت ، ناٹک اکادمی (دی نیشنل اکیڈمی آف میوزک، ڈانس اینڈ ڈراما)کا قیام عمل میں آیا جس کا افتتاح ملک کے پہلے صدر راجندر پرساد نے ۲۸ جنوری ۱۹۵۳ کو پارلیمانی ایوان کی ایک تقریب میں کیا۔
ملک میں اعلی تعلیم کو فروغ دینے اور اس کی حکمت عملی تیار کرنےاور یونیورسٹیوں کی نگرانی کرنے والی قومی سطح کی تنظیم  یونیورسٹی گرانٹس کمیشن کا با ضابطہ افتتاح ۲۸؍دسمبر ۱۹۵۳ کو مولانا آزاد  ہی نے کیا۔ حالانکہ اس ادارے کا قیام آزادی  سے قبل ۱۹۴۵ میں سینٹرل یونیورسٹیز علی گڑھ، بنارس اور دہلی یونیورسٹیوں کی نگرانی کے لیے  عمل میں آیا تھا۔ ۱۹۴۷ میں ملک کی تمام یونیورسٹی کو اس کے دائرہ کار میں شامل کر دیا گیا۔ ۱گست ۱۹۴۹ میں سفارش کی گئی کہ یہ یونیورسٹی گرانٹس کمیشن برطانیہ کی طرز پر کام کرے۔ ۱۹۵۲ میں فیصلہ کیا گیا کہ تمام گرانٹس اور اعلی تعلیمی ادارے یوجی سی کے ذریعہ چلائے جائیں۔ ان خطوط کو متعین کرنے کے بعد مولانا آزاد نے ۱۹۵۳ میں اس کا افتتاح کیا۔
مولانا کے ہی عہد وزارت میں روایتی، پیشہ ورانہ، فنی اور حرفتی تعلیم کے ادب وثقافت کے فروغ کے لیے کئی اداروں کا قیام عمل میں آیا جس کے مستقبل کے ہندوستان گہرا اثر مرتب ہوا۔ 
ہندوستان کی سرمایہ ثقافت اور بیرون ملک اور ان کے عوام کے ثقافت کے باہمی لین دین کی غرض سے ۹؍ اپریل ۱۹۵۰ کو مولانا آزاد کے ہاتھوں قومی کونسل برائے رابطہ ثقافت (انڈین کونسل فار کلچرل ریلیشنس) (آئی سی سی آر) کا قیام عمل میں آیا۔ 
۱۹۵۱ میں شانتی نکتین کو پارلیمنٹ کے ذریعہ قومی یونیورسٹی کی منظوری دی۔ 
 ہندوستانی آرٹ کو ملک و بیرون ملک میں  فروغ دینے اور مشتہر کرنے کی غرض سے ۱۱ ؍مارچ ۱۹۵۴ کو للت کلا اکیڈمی (نیشنل اکیڈمی آف آرٹس)کی تشکیل عمل میں آئی ۔
ہندوستان کی زبانوں اور ان کے ادب کو فروغ دینے کے لیے ۱۲؍ مارچ ۱۹۵۴ میں ساہتیہ اکادمی کا قیام عمل میں آیا۔
ان کے علاوہ مولانا آزاد نے میں سائنسی ، فنی اور پیشہ ورانہ تعلیم کے فروغ کے لیے بھی مختلف طرح کی اسکیمیں تیار کیں اور کئی اداروں کا قیام عمل میں آیا جن میں کونسل فار سائنٹفک اینڈ انڈسٹریل ریسرچ ، انڈین کونسل فار سوشل سائنس، انسٹی چیوٹ آف انٹر نیشنل اسٹڈیز وغیرہ شامل ہیں۔
مولانا آزاد بیک وقت عظیم قائد ، ملی و قومی رہنما، متبحر عالم دین، بیدار مغز مدیر،بے باک صحافی، ماہر زبان داں، فاضل مصنف، شعلہ بیاں مقرر اور مفسر قرآن تھے۔ اردو، عربی ، فارسی اور انگریزی پر انہیں یکساں دسترس حاصل تھی۔ انہوں نے ادھوری تفیسر کے علاوہ درجنوں کتابیں اپنی یادگار چھوڑی ہیں۔ اردو صحافت میں مولانا کے ذریعہ جاری کردہ الہلال اور البلاغ سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں۔
۲۲ فروری ۱۹۵۸ کو مولانا کا انتقال ہوگیا اور دہلی کے مینا بازار کے قریب قبرستان میں ان کی تدفین عمل میں آئی۔ مولانا احمد سعید دہلوی صدر جمعیت علماء ہند نے نماز جنازہ پڑھائی جس میں تقریبا ۵ لاکھ لوگوں نے شرکت کی۔اس طرح ہندوستان ایک عظیم  اور بے بدل قائد و رہنماسے محروم ہوگیا۔