Friday 1 December 2017

عالمی یوم ایڈزWorld AIDS Day

عالمی یوم ایڈز
World AIDS Days
۱۲ دسمبر
عالمی یوم ایڈز ۱۹۸۸ سے ہر سال یکم دسمبر کو دنیا بھر میں منایا جاتا ہے۔ایڈز (Acquire Immune Deficiency Syndrom) ایک مہلک اور اب تک کی لا علاج بیماری ہے جس کا انکشاف سب سے پہلے ۱۹۸۱ میں ہوا۔ یہ بیماری ایچ آئی وی نام کے ایک وائرس سے پھیلتا ہے جو انسان کے مدافعتی نظام کو ناکارہ بنادیتا ہے۔ مدافعتی نظام کے کمزور ہوتے ہی انسان پر مختلف طرح کی بیماریوں کا حملہ بڑھ جاتا ہے اور مدافعتی نظام کمزور ہوجانے کے سبب جسم قدرتی طور پر بیماری کو روکنے میں ناکام ہوجاتا ہے اور اس کی صحت تیزی سے گرتی چلی جاتی ہے ۔ یہ وائرس انسان کے خون اور دیگر رطوبتوں میں پایا جاتا ہے لیکن اس سے متاثر ہونے کا سبب خون اور جنسی رطوبت ہی بنتا ہے۔ یہ وائرس کسی بھی متاثرہ شخص سے اس کے جنسی ساتھی میں داخل ہو سکتا ہے یعنی مرد سے عورت، عورت سے مرد، ہم جنس پرستوں میں ایک دوسرے سے اور متاثرہ ماں سے پیدا ہونے والے بچے میں جا سکتا ہے۔ جنسی پھیلاؤ ترقی یافتہ اور افریقی ممالک میں بیماری کے پھیلاؤ کا بڑا سبب ہے۔
پھیلاؤ کے چند طریقے:
خون کے اجزاء کے ذریعے ایڈز کی بیماری درج ذیل صورتوں میں پھیلتی ہے:
(۱لف) جب ایڈز کے وائرس سے متاثرہ خون یا خون کے اجزاء کو کسی دوسرے مریض میں منتقل کیا جائے۔
(ب) جب ایڈز کے وائرس سے متاثرہ سرنج اور سوئیاں دوبارہ استعمال کی جائیں۔
(ج)   وائرس سے متاثرہ اوزار جلد میں چبھنے یا پیوست ہونے سے مثلا کان، ناک چھیدنے والے اوزار، دانتوں کے علاج میں استعمال ہونے والے آلات، حجام کے آلات اور جراحی کے دوران استعمال ہونے والے آلات۔
(د) ایڈز کا وائرس متاثرہ مان کے بچے میں حمل کے دوران، پیدائش کے وقت یا پیدائش کے بعد منتقل ہو سکتا ہے۔
(ہ) اگر کوئی بھی شخص اوپر بیان کیے گئے بیماری کے پھیلاؤ کے کسی ایک بھی طریقے سے گزرا ہو تو اس کو ایڈز کے جراثیم متاثر کر سکتے ہیں خواہ وہ کسی بھی عمر اور جنس کا ہو۔
ایڈر کی علامات ظاہر ہونے سے پہلے اس کا وائرس انسانی جسم میں کئی مہینوں یا برسوں تک رہ سکتا ہے۔ کسی شحض کے ایڈز کے جراثیم کی اینٹی باڈیز (Antibodies)  اس سے متاثر ہونے کے چھ ہفتے یا اس سے زیادہ عرصہ میں بنتی ہیں۔ جسم میں ایڈز کے جراثیم کی موجودگی معلوم کرنے کے لیےخون میں اینٹی باڈیز کی موجودگی کو ٹسٹ testکیا جاتا ہے۔ بد قسمتی سے یہ اینٹی باڈیز کسی کو بھی یہ بیماری پیدا ہونے سے نہیں بچا سکتیں۔ جس کسی میں بھی ایڈز کا یہ وائرس داخل ہو جاتا ہے وہ اس کو دوسرے میں منتقل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یہ صلاحیت بیماری کے شروع میں یا بیماری کے آخر میں بہت زیادہ ہو جاتی ہے۔
ابتدائی علامات
شروع میں غیر محسوس معمولی زکام کی بیماری ہو سکتی ہے۔ جس پر عموما دھیان نہیں دیا جاتا۔ جس کے بعد مریض مہینوں یا برسوں تک بالکل ٹھیک نظر آ سکتا ہے۔ رفتہ رفتہ وہ مکمل ایڈز کا مریض بن جاتا ہے۔
بڑی علامات
ایڈز کے مریض کی بڑی علامات درج ذیل ہیں:
·         مختصر عرصہ میں جسم کا وزن دس فیصد سے زیادہ کم ہو جانا، ایک مہینے سے زیادہ عرصہ تک اسہال رہنا، بخار کا ایک مہینے سے زیادہ عرصہ تک رہنا، اس کے علاوہ بھی کی نشانیاں ہیں لہذا مستند ڈاکٹر کے پاس جا کر مکمل ایڈز کے ٹیسٹ کروانے چائیں۔
احتیاطی تدابیر:
ایڈز سے بچنے کے لیے درج ذیل احتیاط تبدابیر کرنی چاہیں:
ہمیشہ اپنے جیون ساتھی تک محدود رہیں،جنسی بے راہروی سے بچیں، اگر دونوں جنسی ساتھیوں میں سے کوئی ایک بھی ایڈز کا مریض ہو تو ڈاکٹر کے مشورے سے غلاف کا صحیح استعمال کرنا چائیے، اگر ٹیکہ لگوانا ضروری ہو تو ہمشیہ غیر استعمال شدہ نئی سرنج کے استعمال پر اصرار کریں،خون کا انتقال تب کروائیں جب اس کی اشد ضرورت ہو، اگر زندگی بچانے کے لیے خون کا انتقال ضروری ہو تو اس بات کا یقین کر لیں کہ انتقال کیا جانے والا خون ایڈز اور یرقان وغیرہ کے وائرسز سے مکمل طور پر پاک ہو۔
مدافعتی کیمیکل کی تیاری
2005ء کے آخر تک دنیا میں فی ملک بالغ نوجوان جو کہ ایڈز سے متاثر ہیں۔
1989ء میں سان فرانسسکو کے سائنس دانوں نے ایڈز کے خلاف ایک مدافعتی کیمیکل تیار کیا تھا۔ دسمبر 1995ء میں امریکن یونیورسٹی آف میری لینڈ کے سائنسدانوں کی ایک جماعت نے انسانی خلیوں کی مدد سے ایک قدرتی کیمیکل سی ڈی 8 ایس تیارکیا ہے جس میں ایڈز کے خلاف مدافعت کی بھرپور طاقت موجود ہے۔ لیکن مکمل طور پر کامیابی نہیں ہو سکی۔
کچھ حقائق
دنیا بھر میں ہر نو ماہ کے بعد ایڈز کے مریضوں کی تعداد دو گنا ہو جاتی ہے۔
افریقا میں یہ بیماری سینکڑوں سال پہلے موجود تھی جو سبز بندروں سے پھیلی۔
اس وقت دنیا پھر میں ایڈز کے مریضوں کی تعداد دو کروڑ سے زیادہ ہے۔ ان میں اکثریت خواتین کی ہے۔
دنیا پھر میں ہر روز چھ ہزار سے زائد افراد اس بیماری سے متاثر ہو رہے ہیں۔
 اس کا مقصد ایڈز جو ایچ آئی وی کے سبب پھیلتا ہے لوگوں میں بیداری لانا اور لوگوں کو یاد کرنا ہے جن کی موت ایڈز کے سبب ہوگئی۔ دنیا بھر میں صحت کے شعبہ میں کام کرنے والی سرکاری وغیر سرکاری تنظیموں کے علاوہ انفرادی طور پر بھی اس دن کا منانے کا اہتمام کیا جاتا ہے جس میں ایڈز کی روک تھام اور اس پر قابو پانے کے بارے میں معلومات فراہم کرائی جاتی ہے۔
عالمی یوم  ایڈز عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے ذریعہ شروع کی گئی آٹھ عالمی عوامی صحت مہم جیسے عالمی یوم صحت، عالمی یوم خون عطیہ ، عالمی امیونائزیشن ہفتہ، عالمی یوم تپ دق، عالمی یوم عدم تمباکو، عالمی یوم ملیریااور عالمی یوم ہیپاٹائٹس میں سے ایک ہے ۔
عالمی یوم ایڈز کا پہلی مرتبہ اگست ۱۹۸۷  میں ڈبلیو ایچ او کے عالمی پروگرام برائے ایڈز  کے دو تعلقات عامہ افسرجیمس ڈبلیو بن اور تھومس نیٹر  اہتمام کیا تھا۔ بن اور نیٹر نے اپنے خیال سے عالمی ایڈز پروگرام کے ڈائرکٹر ڈاکٹر جوناتھن من سے واقف کرایا ۔ انہوں نے اس خیال کو پسند کرتے ہوئے منظوری دی اور پہلا عالمی یوم ایڈز یکم دسمبر ۱۹۸۸ کو منانے کی سفارش کی۔ بن سن فرانسسکو کے سابق براڈ کاسٹنگ صحافی تھے۔ انہوں نے یکم دسمبر کی سفارش اس یقین کے ساتھ کی کہ مغربی نیوز میڈیا میں اس کو زیادہ زیادہ جگہ مل سکے گی۔
 ہر سال اس کے لیے تھیم کا بھی تعین کیا جاتا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ اس پر توجہ دی جاسکے۔ 

Tuesday 14 November 2017

یوم اطفال

یوم اطفال
(Children's day)
۱۴ نومبر
بیاد پنڈت جواہر لال (چاچا) نہرو

ہندوستان میں ہر سال ۱۴ نومبر کو یوم اطفال منایا جاتا ہے۔ یہ دن ہندوستان کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو کے یوم پیدائش کی یاد گار ہے۔ پنڈت جواہر لال نہرو کو بچوں سے بہت لگاؤ تھا وہ بچوں سے بہت پیار کرتے تھے  اور ان کے درمیان رہنا انہیں پسند تھا۔ اسی محبت کے سبب بچے بھی انہیں چاچا نہرو کہا کرتے تھے۔ یوم اطفال بچوں کے تئیں پنڈت جواہر لال نہرو کی اسی بے پناہ محبت اور لگاؤ کی یاد گار ہے۔
اس دن کے منانے کا مقصد بچوں کے تئیں لوگوں میں پیار و محبت  کے جذبات کو فروغ دینا اور ان کے حقوق کے تئیں والدین، اساتذہ اور بڑی عمر کے لوگوں میں بیداری لانا ہے۔
پنڈت جواہر لال نہرو نے ملک کی آزادی کے بعد بچوں اور جوانوں کی تعلیم، ان کی ترقی اور فلاح و بہبود کے لیے کئی اہم خدمات انجام دیں۔ انہوں نے جوانوں کی تعلیم کے لیے کئی اہم ادارے مثلا انڈین انسٹی چیوٹ آف ٹیکنالوجی، آل انڈیا انسٹی چیوٹ آف میڈیکل سائنس اور انڈین انسٹی چیوٹ آف مینجمنٹ کی بنیاد ڈالی۔ انہوں نے پنچ سالہ منصوبے میں مفت پرائمری تعلیم کو شامل کیا اور اسکولی بچوں کو سوئے تغذیہ سے بچانے کے لیے مفت دودھ فراہم کرنے کی تجویز رکھی۔
بچپن انسان کی زندگی کے سب سے اہم ایام ہیں۔ یہ انسان کی زندگی کی وہ بنیاد پر جس اس کے مستقبل کی تعمیر ہوتی ہے۔ اس لیے وہ اس بات کے حقدار ہیں کہ ان پر خصوصی توجہ دی جائے تاکہ ان کا مستقبل تابناک ہوسکے۔ یہ بچے محض اپنے والد ین کی اولاد نہیں بلکہ ملک کا سرمایہ بھی ہیں اور ان کی ترقی پر ہی ملک کی ترقی کا انحصار ہے۔ اگر بچپن کے ایام میں ان کی صحیح رہنمائی نہیں کی گئی ان کی زندگی تباہ ہوسکتی ہے ۔ ایسے میں والدین کے ساتھ پوری سوسائٹی اور حکومت کی ذمہ داری ہے کہ انہیں معیاری تعلیم فراہم کرکے، ان کی صحیح تربیت کر کے انہیں  ترقی کی راہ پر گامزن کیا  جائے۔
پنڈت جواہر  لال ہندوستان کی جنگ آزادی کے اہم قائدین اور رہنما میں شامل رہے اور ۱۹۴۷ میں ملک کی آزادی کے بعد پہلے وزیر اعظم منتخب ہوگئے۔ ان کی پیدائش ۱۴ نومبر ۱۸۸۹ کو الٰہ آباد میں ہوئی۔ ان کے والد مشہور وکیل موتی لال نہرو اور والدہ سوروپ رانی تھیں۔ وہ بچپن سے بڑے ذہین نے تھے۔ اس لیے ان کے والدین نے ان کا نام جواہرلال رکھا۔ انہوں نے اعلی تعلیم انگلینڈ میں حاصل کی اور وہاں سے لوٹنے کے بعد جنگ آزادی میں شامل ہوگئے۔ وہ ایک اچھے مصنف اور شاعر بھی تھے ۔ گلائمپس آف ورلڈ ہسٹری اور ڈسکوری آف انڈیا ان کی مشہور کتابیں ہیں۔

۱۴ نومبر کو اسکول، کالجوں، تعلیمی اداروں اورمختلف رفاہی تنظیموں کی جانب سے یوم اطفال کی خصوصی تقریبات کا اہتمام کیا جاتا ہے جس میں ثقافتی پروگرام پیش کیے جاتے اور مختلف طرح کے مقابلوں کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ بچوں کے درمیان پیار و محبت کے جذبہ کا اظہار کرنے کے لیے  بڑوں کی جانب سے ان کے درمیان تحفے اور چاکلیٹ تقسیم کیے جاتے ہیں۔ کئی تنظیمیں غریب اور یتیم بچوں کے درمیان کپڑے، کھلونے ، اسٹیشنری ، کتابیں وغیرہ تقسیم کرکے ان کی حوصلہ افزائی کرتی ہیں۔ 

Friday 10 November 2017

قومی یوم تعلیم

قومی یوم تعلیم
۱۱ نومبر
بیاد مولانا ابوالکلام آزادؒ
گیارہ (۱۱)  نومبر کو ہر سال ہندوستان میں قومی یوم تعلیم منایا جاتا ہے ۔یہ دن ہندوستان کی جنگ آزادی کے ایک عظیم قائد  و رہنما، متبحر عالم دین، بے مثال دانشور اور اسکالر اور ہندوستان کے پہلے وزیر تعلیم مولانا ابو الکلام آزادؒ کے یوم پیدائش کی یاد گار ہے۔ستمبر ۲۰۰۸ میں وزارت ترقی انسانی وسائل کی جانب سے یہ فیصلہ لیا گیا کہ تعلیم کے میدان میں  ملک کے اس عظیم سپوت کی  گراں قدر خدمات کی یاد گار کو باقی رکھنے اور نئی نسل کو ان سے واقف کرانے کے لیے ہر سال ۱۱ نومبر کو قومی یوم تعلیم کے طور پر منایا جائے گا ۔ تب سے ہر سال اس دن کو پورے ملک میں قومی یوم تعلیم کے طور پر منایا جاتا ہے۔
                اس دن کے منانے کا مقصد تعلیمی اداروں کو مضبوط ومستحکم بنانے اور ملک میں معیاری تعلیم کو فرو غ دینے کا عزم مصمم کرنے کے  ساتھ ساتھ آزاد ہندوستان میں تعلیم کی بنیاد کو مضبوط کرنے میں مولانا آزاد کی خدمات کو ناقابل فراموش بنانا، موجودہ تعلیمی کار کردگی کا جائزہ لینا  اور جدید ہندوستان کی تعمیر میں تعلیم کے شعبے میں مولانا کی عظیم خدمات کو  خراج تحسین پیش کرنا ہے۔
قومی یوم تعلیم کے موقع پر اسکولوں ، کالجوں  اور یونیورسٹیوں سمیت تعلیمی اداروں میں تعلیمی موضوعات پر مذاکرہ، سیمینار، سمپوزیم کے ساتھ تقریری و تحریری مقابلے اور دیگر قسم کے ثقافتی پروگرام منعقد کیے جاتے ہیں۔ کئی علمی و ادبی تنظیمیں بھی اس دن پروگراموں کا انعقاد کر کے ان کی علمی و ادبی، تعلیمی اور قائدانہ خدمات کا اعتراف کر کے خراج تحسین پیش کرتی ہے۔
                مولانا ابو الکلام آزاد کا نام محی الدین احمد تھا اور والد نے  فارسی کے مصرعے      ع
’’جواں بخت و جواں طالع ، جواں باد‘‘
سے ہجری سن کا استخراج کرتے ہوئے تاریخی نام ’’فیروز بخت‘‘ رکھا تھا۔ مولانا آزاد نے اپنی کتاب ’ تذکرہ‘‘ میں محی الدین کی جگہ اپنا نام صرف احمد لکھا ہے۔ ابو الکلام آزاد ان کی کنیت تھی۔ ان کی پیدائش ایک معزز گھرانے میں مکہ (سعودی عرب)میں ہوئی جہاں ان کے والد ۱۸۵۷ کی پہلی جنگ آزادی کے بعد ہجرت کر گئے تھے۔ ان کی  تاریخ پیدائش کی وضاحت کہیں موجود  نہیں ہے۔ مولانا نے اپنی کتاب ’’تذکرہ‘‘ میں ۱۸۸۸ مطابق ذو الحجہ ۱۳۰۵ھ درج کی ہے۔  مالک رام نے اپنی تحقیق سے ثابت کیا ہے کہ ۱۸۸۸ء میں ذی الحجہ کا مہینہ ۹؍ اگست سے ۶ ستمبر کے درمیان تھا۔ اس طرح تاریخ پیدائش میں ماہرین کے درمیان بڑا اختلاف پایا جاتا ہے۔ تمام مباحث کا نتیجہ یہی ہے کہ ۹ ؍اگست سے ۶ ؍ستمبر کے درمیان ان کی تاریخ پیدائش ہے۔  بہر حال حکومت کے ذریعہ ۱۱ نومبر ۱۸۸۸ ءکو مولانا  کی تاریخ پیدائش تسلیم کرتے ہوئے اسی تاریخ کو ’’قومی یوم تعلیم‘‘ قرار دیا گیا ہے۔
                حالانکہ جس طرح کئی مسائل اور موضوعات پر  دن کے انعقاد کی جگہ ہفتے اور مہینوں کی مہم چلائی جاتی ہے اور فلاں ہفتہ اور فلاں مہینہ قرار دیا جاتا ہے ،اسی طرح ۹ اگست سے ۶ ستمبر تک کو ’’ماہ تعلیم‘‘ بھی قرار دیا جاسکتا ہے۔ موجودہ وقت میں تعلیم کی جو صورتحال ہے اس میں اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ اس پر سنجیدگی میں اضافہ کیا جائے اور ’’یوم تعلیم‘‘ کی جگہ ’’ماہ تعلیم‘‘ قرار پائے اور اس کی مہم چلائی جائے۔
یہاں یہ  بات بھی کہی جاسکتی ہے کہ قومی یوم تعلیم حکومت کی ایک رسمی کارروائی ہے جو ہوتی ہے اور ہوا کرے ۔ ہم اس کے لیے حکومت کے شکر گزار ہیں کہ اس نے مولانا آزاد کی یاد کو باقی رکھا۔ لیکن ہم مسلمان اگر اپنے طور پر یہ کوشش کریں کہ ۶ اگست سے ۹؍ ستمبر کو ماہ تعلیم قرار دے کر تعلیمی بیداری کی ایک مہم چلائیں تاکہ ہمارے معاشرے میں مزید تعلیمی بیداری آئے اور وہ بچے جو اب بھی مفلوک الحالی،  معاشی تنگی یا غفلت کے سبب تعلیم سے دور ہیں انہیں تعلیم سے جوڑ دیں تو مولانا کی یاد اور مولانا کے لیے ایک صدقہ جاریہ کا ذریعہ بھی بن سکتا ہے۔حکومت نے مختلف اسکیموں کے ذریعہ ایک ایک بچے کو تعلیم سے جوڑنے کی مہم چلا رکھی ہے اور شاید کاغذی سطح پر اب ہر بچہ کسی نہ کسی اسکول کا طالب علم بھی ہے لیکن ہم سب جانتے ہیں کہ زمینی حقائق یہ نہیں ہیں۔ ہر شہر کےکچھ محلوں میں اب بھی بچے سڑکوں پر کچڑے چنتے نظر آئیں گے اور ان کا تعلق اکثر مسلمان سے ہوتا ہے۔
مولانا آزاد کے والد کا نام مولوی خیر الدین تھا  جن کا تعلق دہلی کے ایک ممتاز علمی گھرانے سے تھا اور  والدہ کا تعلق مدینہ سے تھا۔ وہ شیخ محمد بن ظاہری وتری مفتی مدینہ کی بھانجی تھیں۔ ان کے خاندان میں علم وفضل کے حامل تین بڑے خاندان کا اجماع تھا۔ تاہم وہ اس کو عز وشرف کا ذریعہ نہیں سمجھتے تھے ۔ ان کا خیال تھا کہ ’’انسان کے لیے معیار شرف جوہر ذاتی اور خود حاصل کردہ علم وعمل ہے‘‘ اس سے خاندان پہچانا جائے نہ کہ خاندان سے انسان کی پہچان ہو۔ 
مولانا دو سال کے تھے تو ان کے والدین ہندوستان واپس آگئے۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم اپنے والد مولوی خیر الدین سے حاصل کی۔ پھر جامعہ ازہر مصر چلے گئے اور صرف ۱۴ سال کی عمر میں مروجہ مشرقی علوم کے نصاب کی تکمیل کرلی۔ جنگ آزادی کے درمیان مولانا نے سرگرم قائدانہ رول ادا کیا اور کئی مرتبہ قید اور نظر بندی کے مراحل سے بھی گزرنا پڑا۔۱۹۴۲ سے۱۹۴۵ کے درمیان وہ  جب قلعہ احمد نگر میں دیگر بڑے قائدین کے ساتھ قید میں تھے، ان کی اہلیہ زلیخا بیگم کا انتقال ہوگیا اور مولانا اپنی اہلیہ کا آخری دیدار بھی نہیں کرسکے۔مولانا نے اپنے ایک خط میں اس واقعے کا بڑے جذباتی انداز میں ذکر کیا ہے۔ ملک کے بڑے لیڈران ان کی فراست پر اعتماد اور ان کے فیصلے کا احترام کرتے تھے۔ وہ  ۱۹۲۳ اور ۱۹۴۰سے۴۶ میں انڈین نیشنل کانگریس کے صدر بھی رہے۔
                ۱۵ اگست ۱۹۴۷ کو جب ملک آزاد ہوا تو  مولانا آزاد کو  وزارت تعلیم کا قلمدان سونپا گیا جس پروہ  ۲ فروری ۱۹۵۸ تک فائز رہے۔ اس قبل جب عبوری حکومت قائم ہوئی تھی تب بھی مولانا آزاد کو وزارت تعلیم کا قلمدان ہی عطا کیا گیا تھا۔ جنگ آزادی  میں جو لوگ سرگرم اور قائدانہ کردار ادا کر رہے تھے ان میں فراست  علمی،مطالعہ کی وسعت اور  تنوع  اور مختلف مشرقی و مغربی علوم پر گرفت کے اعتبار سے مولانا کی حیثیت امتیازی تھی۔مولانا  وزارت تعلیم جیسے اہم اور سنجیدہ قلمدان  کے یقینا اہل تھے لیکن ان کا مقام اس سے بالا تر تھا۔
                مولانا آزاد کا شمار گرچہ ماہر تعلیم میں نہیں ہوتا ہے لیکن تعلیم پر ان کا مستقل اور مستحکم نظریہ تھا۔ وہ مشرقی علوم کے پروردہ ہونے کے باوجود جدید اور وقت کی متقاضی تعلیم کے حامی تھے جس کی تحریک سرسید پہلے  ہی چلا چکے تھے ۔مولانا خود بھی جن شخصیات سے متاثر تھے ان میں سرسید کی شخصیت بھی شامل ہے۔آل انڈیا خلافت کانفرنس منعقدہ کانپور ۲۹ دسمبر ۱۹۲۵ کے خطبے میں انہوں نے کہا تھا: ’’ہمارے لیے ہر حال میں مقدم کام عوام کی تعلیم ہے۔ یہی کام سب سے زیادہ ضروری ہے اور اسی کی طرف سے ہمیشہ اغماض برتا گیا ہے۔ ....... تعلیم سے مقصود وہ تعلیم ہی نہیں ہے جو قواعد اور منضبط اصول کے ذریعہ مکتبوں اور مدرسوں میں دی جاتی ہے۔ یہ تو در اصل آنے والے عہد کے لیے ہے جنہیں آج پڑھایا جارہا ہے، وہ کل کام کریں گے۔ لیکن قوم کو اس کی موجودہ حالت میں بلند کرنے کے لیے ضروری ہے کہ موجودہ نسل کی دماغی حالت اور عملی استعداد درست کی جائے۔ وقت کی تمام مشکلات کا یہی علاج ہے‘‘
   ۱۸فروری ۱۹۴۷ کو ایک پریس کانفرنس میں تعلیم پر اظہار کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا :’ صحیح طور پر آزادانہ اور انسانی قدروں سے بھرپور تعلیم ہی لوگوں میں زبردست تبدیلی کا باعث ہوسکتی ہے اور انہیں ترقی کی طرف لے جاسکتی ہے۔‘‘
 ہندوستانی کمیٹی بہار ۱۹۳۷ کے خطبے میں انہوں نے کہا تھا: ’’ہندوستان کو ایک نئی زبان سیکھنا چاہیئے اور نئے علوم و فنون کو اس کے ذریعہ سیکھ کر ترقی کے راستہ میں بڑھنا چاہئے۔‘‘
ان کے علاوہ مولانا نے مختلف مواقع پر پیش کئے گئے خطبات اور تحریروں میں بھی ان کے تعلیمی نظریات کی عکاسی ہوئی ہے۔ خطبات آزاد کے صفحہ ۲۳۰ اور ۲۶۵ پر قدرے تفصیل سے انہوں نے تعلیمی مسائل پر روشنی ڈالی ہے۔
 وزیر کی حیثیت سے وہ سنٹرل ایڈوائزری بورڈ آف ایجوکیشن کے چیرمین تھے۔ انہوں نے ملک میں تعلیمی پالیسیوں کو تشکیل دینے اور نئے اداروں کے قیام کی راہ ہموار کی تعلیم نظام کو مؤثر بنانے کی کوشش کی۔ وہ ملک میں مشرقی علوم کے ساتھ ساتھ عصری اور سائنسی علوم کو فروغ دینا چاہتے تھے اور اس کو یقینی بنانے کے لیے بحیثیت وزیر حکمت عملی تیار کی۔ البتہ مولانا آزاد کے نزدیک تعلیم کا مقصد انسان کو محض پیسے کمانے کے لائق بنانا نہیں بلکہ شخصیت کی  مکمل تعمیر  کرنا تھا جو اعلی انسانی قدروں کا حامل اور نسلی، قومی، لسانی  مذہبی جیسے تمام طرح کے تعصبات سے پاک  اور اوپر ہو۔ ان کے تعلیمی نظریات میں فرقہ وارانہ یگانگت اور قومی اتحاد کو  اہمیت حاصل ہے۔
موجودہ وقت میں جو تعلیمی  نظام  نافذ  العمل ہے اس کی مستحکم بنیاد مولانا آزاد نے ہی ڈالی تھی گرچہ ان کا جو خواب تھا اس پر تا دم ایں عمل نہیں ہوسکا اور اب اس کے ساتھ جو چھیڑ چھاڑ ہورہی ہے یہ عمل ان کے اس مخلصانہ جذبہ کے منافی ہے جس کے تحت انہوں نے دو قومی نظریے کا شدت سے اختلاف کیا تھا اور پوری طاقت سے ملک کے مسلمانوں کو پاکستان ہجرت کرنے سے روکا تھا۔ قانون حق تعلیم جو ۲۰۰۹ میں نافذ کیا گیا اس کا تصور مولانا آزاد نے بہت پہلے ہی دے دیا تھا ۔ وہ اس وقت بھی  ۶ سے ۱۴ سال تک کے بچوں کو  مفت تعلیم فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری سمجھتے تھے۔
مولانا آزاد کے عہد وزارت میں ہی موسیقی، رقص اور ڈراما کے میدان میں ملک کے قیمتی ثقافتی اثاثہ جات کو باقی رکھنے اور زیادہ سے زیادہ فروغ دینے کے لیے۳۱ مئی ۱۹۵۲ کو سنگیت ، ناٹک اکادمی (دی نیشنل اکیڈمی آف میوزک، ڈانس اینڈ ڈراما)کا قیام عمل میں آیا جس کا افتتاح ملک کے پہلے صدر راجندر پرساد نے ۲۸ جنوری ۱۹۵۳ کو پارلیمانی ایوان کی ایک تقریب میں کیا۔
ملک میں اعلی تعلیم کو فروغ دینے اور اس کی حکمت عملی تیار کرنےاور یونیورسٹیوں کی نگرانی کرنے والی قومی سطح کی تنظیم  یونیورسٹی گرانٹس کمیشن کا با ضابطہ افتتاح ۲۸؍دسمبر ۱۹۵۳ کو مولانا آزاد  ہی نے کیا۔ حالانکہ اس ادارے کا قیام آزادی  سے قبل ۱۹۴۵ میں سینٹرل یونیورسٹیز علی گڑھ، بنارس اور دہلی یونیورسٹیوں کی نگرانی کے لیے  عمل میں آیا تھا۔ ۱۹۴۷ میں ملک کی تمام یونیورسٹی کو اس کے دائرہ کار میں شامل کر دیا گیا۔ ۱گست ۱۹۴۹ میں سفارش کی گئی کہ یہ یونیورسٹی گرانٹس کمیشن برطانیہ کی طرز پر کام کرے۔ ۱۹۵۲ میں فیصلہ کیا گیا کہ تمام گرانٹس اور اعلی تعلیمی ادارے یوجی سی کے ذریعہ چلائے جائیں۔ ان خطوط کو متعین کرنے کے بعد مولانا آزاد نے ۱۹۵۳ میں اس کا افتتاح کیا۔
مولانا کے ہی عہد وزارت میں روایتی، پیشہ ورانہ، فنی اور حرفتی تعلیم کے ادب وثقافت کے فروغ کے لیے کئی اداروں کا قیام عمل میں آیا جس کے مستقبل کے ہندوستان گہرا اثر مرتب ہوا۔ 
ہندوستان کی سرمایہ ثقافت اور بیرون ملک اور ان کے عوام کے ثقافت کے باہمی لین دین کی غرض سے ۹؍ اپریل ۱۹۵۰ کو مولانا آزاد کے ہاتھوں قومی کونسل برائے رابطہ ثقافت (انڈین کونسل فار کلچرل ریلیشنس) (آئی سی سی آر) کا قیام عمل میں آیا۔ 
۱۹۵۱ میں شانتی نکتین کو پارلیمنٹ کے ذریعہ قومی یونیورسٹی کی منظوری دی۔ 
 ہندوستانی آرٹ کو ملک و بیرون ملک میں  فروغ دینے اور مشتہر کرنے کی غرض سے ۱۱ ؍مارچ ۱۹۵۴ کو للت کلا اکیڈمی (نیشنل اکیڈمی آف آرٹس)کی تشکیل عمل میں آئی ۔
ہندوستان کی زبانوں اور ان کے ادب کو فروغ دینے کے لیے ۱۲؍ مارچ ۱۹۵۴ میں ساہتیہ اکادمی کا قیام عمل میں آیا۔
ان کے علاوہ مولانا آزاد نے میں سائنسی ، فنی اور پیشہ ورانہ تعلیم کے فروغ کے لیے بھی مختلف طرح کی اسکیمیں تیار کیں اور کئی اداروں کا قیام عمل میں آیا جن میں کونسل فار سائنٹفک اینڈ انڈسٹریل ریسرچ ، انڈین کونسل فار سوشل سائنس، انسٹی چیوٹ آف انٹر نیشنل اسٹڈیز وغیرہ شامل ہیں۔
مولانا آزاد بیک وقت عظیم قائد ، ملی و قومی رہنما، متبحر عالم دین، بیدار مغز مدیر،بے باک صحافی، ماہر زبان داں، فاضل مصنف، شعلہ بیاں مقرر اور مفسر قرآن تھے۔ اردو، عربی ، فارسی اور انگریزی پر انہیں یکساں دسترس حاصل تھی۔ انہوں نے ادھوری تفیسر کے علاوہ درجنوں کتابیں اپنی یادگار چھوڑی ہیں۔ اردو صحافت میں مولانا کے ذریعہ جاری کردہ الہلال اور البلاغ سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں۔
۲۲ فروری ۱۹۵۸ کو مولانا کا انتقال ہوگیا اور دہلی کے مینا بازار کے قریب قبرستان میں ان کی تدفین عمل میں آئی۔ مولانا احمد سعید دہلوی صدر جمعیت علماء ہند نے نماز جنازہ پڑھائی جس میں تقریبا ۵ لاکھ لوگوں نے شرکت کی۔اس طرح ہندوستان ایک عظیم  اور بے بدل قائد و رہنماسے محروم ہوگیا۔


Monday 25 September 2017

عالمی یوم سگ گزیدگی

عالمی یوم سگ گزیدگی (World Rabies Day)
۲۸ ستمبر
                عالمی یوم سگ گزیدگی ورلڈ ریبیز ڈے ہر سال ۲۸ ستمبر کو دنیا بھر میں منایا جاتا ہے۔ اس دن کے منانے کا مقصد ریبیز کے پھیلاؤ پر قابو پانے، روک تھام کے لیے لوگوں میں بیداری لانا ہے۔
                یہ فرانسیسی کیمسٹ اور مائیکرو بایولوجی کے ماہر لوئیس پاسچر کی موت کے دن کا بھی یادگار ہے۔ لوئیس پاسچر نے پہلی مرتبہ ریبیز ویکسین کی دریافت کی تھی۔
ریبیز ایک مہلک بیماری ہے جو جانوروں سے انسانوں میں (Zoonotic)اثر انداز ہونے والی بیماری ہے۔ ریبیز لائسا وائرس کی وہ سے پھیلنے والی بیماری ہے۔ یہ زخم یا خراش یا متاثر جانور کے رابطے میں آنے (کاٹنے سے )انسانوں میں پھیلتی ہے۔ یہ انسان پر اثر ہونے کے بعد ریڑھ کی ہڈی اور دماغ کی طرف بڑھتا ہے۔ دماغ میں پہنچنے کے بعد اس وائرس کی علامتیں متاثر انسان پر دکھائی دینے لگتی ہیں۔
’’رے بیز (Rabies) یا سگ گزیدگی ایک موذی بیماری ہے جو عموماً پاگل کتے کے لعاب میں موجود وائرس سے ہوتی ہے اور ایسے کتے کے کاٹنے سے انسانی جسم میں پھیل جاتی ہے ۔اس بیماری کا پہلے کوئی قابل اعتماد علاج نہ تھا ۔ 6 جولائی 1885 میں لوئی پاسچرنامی سائنسدان نے رے بیز میں مبتلا پہلے انسان کا علاج کیا جو کامیاب رہا۔
رے بیز کی مہلک بیماری انسانوں میں دودھ پلانے والے جانوروں خاص طور پر کتے ، بلی ، چمگادڑ ، لومڑی ، گیدڑ اور نیولے کے کاٹنے سے منتقل ہوتی ہے ۔ رے بیز کا وائرس (Rhabdoviridae) کی فیملی Lyssavirus سے تعلق رکھتا ہے ۔ اس وائرس کی شکل پستول کی گولی سے مشابہت رکھتی ہے ۔ یہ وائرس رے بیز کی بیماری میں مبتلا جانور جس کو پاگل (Rabid) کہا جاتا ہے کہ منہ کی رطوبت میں پایا جاتا ہے ۔ جب بیماری میں مبتلا جانور انسان کو کاٹتا ہے تو یہ وائرس اس رطوبت کے ذریعے انسانی جسم میں داخل ہوجاتا ہے اور پھر انسان بھی اس بیماری میں مبتلا ہوجاتا ہے ۔
رے بیز کا وائرس انسانی جسم میں خون کے ذریعے سفر نہیں کرتا بلکہ ہمارے اعصاب (Never Fibres) کے ذریعے سفر کرتاہوا دماغ تک پہنچتا ہے۔ یہ وائرس 2.3 ملی میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کرتا ہے ، اس لئے یہ تصور کیا جاتا ہے کہ کاٹنے کا زخم دماغ سے جتنا قریب ہوگامریض کی جان کو زیادہ خطرہ لاحق ہوگا۔ رے بیز وائرس انسانی جسم میں برسوں تک زندہ ر ہ سکتا ہے اور اپنی علامات دس دن سے ایک سال کی مدت میں ظاہر کرسکتاہے ۔
رے بیز کی بیماری کی علامات کے اعتبار سے دو اقسام ہیں ۔(01) فیورس(Furious) ، (02) ڈمپ(Dumb) ۔ پہلی قسم میں مریض کے دماغ میں سوزش ہونے کے باعث وہ ڈپریشن اور بے چینی محسوس کرتا ہے ۔ جبکہ دوسری قسم میں مریض اعضاء کے پٹھوں کی کمزوری اور فالج کی سی کیفیت میں مبتلا ہوجاتا ہے جو کافی خطرناک ہوتی ہے ۔ رے بیز کی پہلی علامت کتے کے کاٹنے کے دو سے چار دنوں میں ظاہر ہونا شروع ہوجاتی ہے پہلے مرحلے میں مریض کو زخم کے ارد گرد چبھن ، خارش اور درد محسوس ہوتا ہے ۔ مریض بے چینی،  تھکاوٹ ، سردرد اور بخار محسوس کرتاہے ۔ جب رے بیز کا وائرس دماغ تک پہنچ جاتا ہے تو اس پر ہیجانی دورے پڑنے شروع ہوجاتے ہیں۔ مریض کو پانی پینے اور دیکھتے ہوئے خوف محسوس ہوتاہے ۔ سانس لینے میں دشواری او رکاوٹ ہوتی ہے ۔ آنکھوں کی پتلی ٹھہر جاتی ہے ۔ یہ تمام علامات فیوریس رے بیز کی ہیں ۔ ایسے مریضوں کو فوری طور پر کسی علیحدہ اور محفوظ جگہ پر منتقل کردینا چاہیے، کیونکہ رے بیز کی بیماری میں مبتلا شخص کے کاٹنے سے یہ بیماری دوسروں تک منتقل ہوسکتی ہے ۔ دوسری قسم ڈمب رے بیز میں مریض بالکل بے سدھ اور فالج کی سی کیفیت میں مبتلا ہوجاتاہے ۔ غشی و نیم بے ہوشی طاری ہوجاتی ہے اور پھر کچھ عرصے کے بعد مریض کی موت واقع ہوجاتی ہے ۔
رے بیز کی موذی بیماری سے بچاؤ ممکن ہے ۔ وہ افراد جو کتوں کو پالتے ہیں یا وہ افراد جو ان جانوروں کے علاج معالجے سے منسلک ہیں یا ایسے فارم جہاں ان جانوروں کی افزائش کی جاتی ہے ، انہیں چاہیے کہ اپنے پالتو کتوں کو رے بیز سے بچاؤ کے ٹیکے ''ویکسین'' لگوائیں اور خود بھی اس موذی مرض سے بچاؤ کے ٹیکوں کا کورس کروائیں۔ 
عالمی ادارہئ صحت(WHO) کے مطابق رے بیز سے بچاؤ کے لئے صرف تین ٹیکوں کا کورس ہوتا ہے جو پہلے دن ، ساتویں دن اوراٹھائیسویں دن لگتا ہے ۔ اس کے بعد حفاظتی اقدام کے طور پر ایک سال کے بعد ایک ٹیکہ اور پانچ سال کے عرصے میں اس کی حفاظت کے لئے ایک ٹیکہ دیا جاتا ہے ۔ اس طرح ہر پانچ سال کے بعد یہ ٹیکہ لگانے سے ساری زندگی اس بیماری سے بچاؤ ممکن ہے ۔
رے بیز کی بیماری کے طریقہ ئ علاج کے سلسلے میں چند ضروری باتیں یاد رکھنی چاہیے ۔ مذکورہ تمام جانوروں خاص طور پر کتے کے کاٹنے کے فوراً بعد متاثرہ شخص کے زخم کو فوری طور پر صابن اور پانی سے اچھی طرح دھوئیں ۔ اگرجراثیم کش لکوڈ موجود ہو تو اس سے اچھی طرح زخم صاف کریں ۔ زخم کو ٹانکوں یا پٹی کی مدد سے بند نہ کریں بلکہ کھلا رہنے دیں ۔ اگر خون زیادہ بہہ رہا ہو تو صرف ڈھیلی سی پٹی کر دیں تاکہ خون رُک جائے اور متاثرہ شخص کو فور ی طور پر قریبی اسپتال پہنچادیں۔
عام تصور یہ بھی کیا جاتا ہے کہ کاٹنے والے کتے کو ہم دس بارہ دن تک دیکھیں ، اگر وہ مرجائے تب ویکسین لگوائیں اور اگر وہ نہ مرے تو نہ لگوائیں۔ یہ تصوربالکل غلط ہے ۔ متاثرہ شخص کو دس دن سے پہلے تین حفاظتی ٹیکوں کا کورس ضرور کروادینا چاہیے تاکہ متاثرہ شخص اس جان لیوا بیماری سے محفوظ رہ سکے۔ اگر کاٹنے والے کتے کی نگرانی نہیں کرسکتے تو پھر رے بیز سے بچاؤ کے پانچ ٹیکوں کا مکمل کورس کروانا انتہائی ضروری ہے ۔ رے بیز سے بچاؤ کی ویکسین ''ویروریب ۔۔(Vero Rab) کے نام سے مارکیٹ میں باآسانی دستیاب ہے اور اس کے صرف پانچ ٹیکے کاٹنے سے پہلے دن ، تیسرے دن ، ساتویں دن ، چودھویں دن اور اٹھائیسویں دن بازو میںلگتے ہیں ۔ یہ ویکسین نتائج کے اعتبار سے بہترین ہے ۔ ہمارے ملک کے کچھ اسپتالوں میں آج بھی 14 انجکشن پیٹ میں لگائے جاتے ہیں جو پرانا طریقہ علاج ہے اور عالمی ادارہئ صحت (WHO) نے اسے ممنوع قرار دے دیا ہے ۔ رے بیز کی ویکسین کے ساتھ ساتھ رے بیز امینو گلو بیولین (RIG) بھی لگوانا بے حد ضروری ہے ۔ اس سے متاثرہ شخص کو فوری طور پر رے بیز وائرس کے خلاف قوتِ مدافعت حاصل ہوجاتی ہے او روائرس کو متاثرہ جگہ سے ختم کرنے میں آسانی ہوتی ہے ۔ 
دنیابھر میں رے بیز کا یا تو خاتمہ کیا جاچکا ہے یا وہ اپنے زوال پر ہے ، خاص طور پر شمالی امریکہ اور یورپ بلکہ ایشیاء کے کچھ اعلیٰ معیارات کے حامل ممالک بھی اس کی دسترس سے دور ہورہے ہیں جس کے نتیجے میں تھائی لینڈ، سری لنکا ، کوریا اور ویت نام میں ہر سال رے بیز کا شکار ہونے والے افراد کی تعداد چند ایک تک محدود ہوکر رہ گئی ہے ۔ دنیا بھر میں اس جان لیوا مرض میں بدقسمتی سے دو ممالک پاکستان اور بھارت اہم کردار ادا کررہے ہیں ۔ اس افسوسناک صورتحال کی بڑی وجہ مرض اور اس کے علاج سے لا علمی کے ساتھ ان مریضوں کا غلط رویہ ہے ، جو علاج کے لئے گھریلو ٹوٹکے یا متبادل ادویہ استعمال کرتے ہیں۔ 
اس تمام صورتحال کے تناظر میں یہ ضروری ہے کہ این آئی ایچ ''نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ'' جدید تجربہ گار کے قیام کے ساتھ تربیت یافتہ سائنسدانوں کا بھی تقرر کرے اور کوالٹی کنٹرول کے مفصل اور جامع طریقہ کار کا بھی اطلاق کرے۔ انہیں بین الاقوامی اعلیٰ معیار کی تیاری کی سطح تک پہنچنا چاہیے ، اگر تھوڑی سی توجہ دی جائے اور کچھ قابل عمل پروگرام مرتب کیے جائی تو دیگر ممالک کی طرح جیسا کہ ملائیشیانے کتوں کی آبادی پر قابو اور ویکسی نیشن کو لازمی قرار دے کر اس بیماری سے اپنے ملک کو نجات دلادی ہے ۔ تھائی لینڈ کی وسیع سرحد سے اس مرض کا خاتمہ ہوچکا ہے ، پاکستان بھی اس موذی بیماری سے نجات حاصل کرنے والے ممالک میں شامل ہوسکتا ہے ۔ اگرکتے کے کاٹے کا ابتداء ہی میں بہتر علاج کرلیاجائے تو اس مرض پر قابو پایا جاسکتا ہے ۔ تاہم علاج میں لاپروائی کی صورت میں بھیانک نتائج سامنے آسکتے ہیں ، جو مریض کی موت کا سبب تک بن سکتے ہیں۔‘‘
(اردو فورم سائٹ سے کاپی)
علامات:
زخم میں درد اور خارش، بخار، دو چار دنوں تک مستقل درد، پانی سے خوف (ہائیڈرو فوبیا)، روشنی یا شور برداشت کرنے میں مشکل پیش آنا۔ ہذیان (Hallucination) اور رویہ میں تبدیلی۔
احتیاطی تدابیر:

ریبیز کے سلسلے میں بطور خاص بچوں میں بیداری لانا۔ آوارہ جانوروں کے رابطے سے بچنا، گھریلو کتے کے ساتھ ساتھ آوارہ کتے کی ٹیکہ کاری، کتے پکڑنے والوں، ریبیز کے مریضوں، جانوروں سے راست رابطہ میں آنے والے میڈیکل اور پارا میڈیکل ملازمین ، سڑک پر، دیہی علاقوں میں زیادہ تر رہنے والے مسافروں کو ریبیز سے متاثر ہونے کا خطرہ زیادہ رہتا ہے، اس لیے ان سے اپنےآپ کو محفوظ رکھنا چاہئے۔ جانوروں کے کاٹنے پر اینٹی ریبیز ویکسین کے لیے فورا ڈاکٹر سے رابطہ کرنا چاہئے۔ 

Friday 22 September 2017

الزائمر (بھولنے کی بیماری) کا عالمی دن

الزائمر (بھولنے کی بیماری) کا عالمی دن
۲۱ ستمبر
ستمبر یعنی الزائمر کا مہینہ
۲۱ ستمبر کو الزائمر (Alzheimer) کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ جبکہ ستمبر کو الزائمر کا  مہینہ بھی قرار دیا گیا ہے۔الزائمر کے عالمی دن کا  اعلان ایڈن برگ میں منعقد ہونے والے الزائمر ڈیزیز انٹرنیشنل (اے ڈی آئی) کے سالانہ کانفرنس میں ۲۱ ستمبر ۱۹۹۴ کو اس کی دسویں سالگرہ منانے کے لیے کیا گیا تھا۔ تب سے یہ دن ہر سال ستمبر میں اسی تاریخ کو منایا جاتا ہے۔ ۲۰۱۲ سے پورے ستمبر کے مہینے کو الزائمر کا مہینہ بھی قرار دے دیا گیا ہے۔
اس دن کے منانے کا مقصد الزائمر (بھولنے کی بیماری) اور اس کے مریضوں کے تئیں عوام میں بیداری لانا ہے۔جبکہ پورے مہینے کو الزائمر مہینہ قرار دینے کا مقصد بھی یہ ہے کہ زیادہ  سے زیادہ دن میں اس کے تئیں بیداری لائی جائے۔ بین الاقوامی تنظیموں کے ساتھ ساتھ قومی اور مقامی سطح کی تنظیمیں بھی اس بیداری میں شرکت کرسکیں اور زیادہ سے زیادہ جگہوں اور لوگوں تک اپنے پیغام پہنچاسکیں۔  الزائمر یعنی بھولنے کی بیماری رفتہ رفتہ عالمی مسئلہ بنتا جارہا ہے۔ لہٰذا اس کے لیے عالمی سطح پر اقدام کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ چونکہ یہ  ایک سنگین مسئلہ ہے اس لیے اس کے تئیں سنجیدہ کوششیں بھی ہونی چاہئیں۔
الزائمر ایک عصبی بیماری ہے جس میں  میں دماغ کے خلیات ناکارہ ہوتے چلے جاتے ہیں۔اس کے نتیجے میں یاد داشت میں کمی،  رویہ میں بدلاؤ اور بے ضابطگی اور سوچنے کی صلاحیت کم ہوتی چلی جاتی ہے۔اس کی سب سے واضح شکل کو ڈیمنشیا (Dementia) کہتے ہیں۔اس کو بھولنے کی بیماری بھی کہہ سکتے ہیں۔ اس مرض کے شکار مریض شناساؤں کے نام، پتہ، سڑکوں اور دیگر چیزوں کے نام بھول جاتے ہیں۔ یہ بھولنے کی ہلکی عادت  سے شروع ہوتی ہے اور مسلسل بڑھتے ہوئے انتہا کو پہنچ جاتی ہے۔
  ۱۹۰۶ میں جرمن کے نیورو لوجسٹ (ماہر امراض اعصاب) الوئیس الزائمر نے اس بیماری کی دریافت کی تھی اور انہی کے نام پر اس بیماری کو الزائمر (Alzheimer) کا نام دیا گیا۔ عام طور پر الزائمر ضعیف لوگوں میں ہوتی ہے لیکن کم عمر کے لوگوں میں بھی یہ بیماری پائی گئی ہے۔ اب تک اس بیماری کا کوئی کامیاب علاج دریافت نہیں کیا جاسکا ہے لیکن اس کے لیے کچھ احتیاط اور ورزش  اور سماجی وذاتی سرگرمیوں اور مصروفیات قسم کی تدابیر اختیار کر کے اس کو کم کیا جاسکتا ہے۔
علامات:
یاد داشت میں کمی یا بھولنا(جو روز مرہ کی زندگی کو متاثر کرتا ہے)، مسائل کو سلجھانے میں ناکامی، گھر، کام جگہوں یا کسی بھی کام کو جانی پہچانی جگہوں پر بھی پورا کرنے میں دشواری کا سامنا کرنا، وقت یا جگہ کے بارے میں وہم کا پیدا ہونا، کسی جگہ کی تصویر یا مقامی رشتوں کو سمجھنے میں دشواری پیش آنا، لفظ کی ادائیگی یا لکھنے میں نئی طرح کی دشواری کا سامنا، چیزوں کو گھر یا باہر کہیں  محفوظ جگہ پر بھی رکھ دینا اور بھول جانا اور اس کو تلاش کرنے میں پریشان ہونا، غلط فیصلہ لینا یا فیصلہ لینے کی صلاحیت میں کمی، کام یا سماجی سرگرمیوں سے فرار اور مزاج اور شخصیت میں تبدیلی۔ الزائمر کے مریض اکثر اپنے گھر کے افراد اور قریبی رشتہ داروں کے نام بھی بھول بھول جاتے ہیں۔ کبھی کبھی تو خود اپنا نام بھی انہیں یاد نہیں رہتا ہے۔ حالانکہ ان میں سے کچھ علامتوں  سے انسان یوں بھی دوچار ہو جاتا ہے۔ لیکن یہ اگر عادت ہو جائےتو گھر کے لوگوں کو اس پر توجہ دینی چاہئے۔
احتیاطی تدابیر
جسمانی، ذہنی، سماجی اور پر لطف سرگرمیوں میں  خود کو مصروف رکھنا، پڑھنا، (مسرت کے حصول کے لیے) کچھ کچھ لکھنا ، آلات موسیقی بجانا، تدریسی امور میں شرکت کرنا، گھر کے اندر کے کھیلے جانے والے کھیلوں میں مصروف رہنا، تیراکی کرنا، گروپ کے ساتھ کھیلنا، گھومنا، عبادت میں مصروف رہنا ، گھر کے کاموں میں ہاتھ بٹانا،افراد خانہ کے ساتھ بیٹھ کر بات چیت کرنا، سماج میں ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک رہنا وغیرہ۔  ان سب کا مقصد مریض کو زیادہ سے زیادہ مصروف رکھنا ہے ۔ اس لیے ایک بہتر طریقہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ سماج کے لیے کئے جانے والے فلاحی کاموں میں رضاکارانہ طور پر شرکت کر وائی جائے۔ مثلا اگر بچوں کو پڑھا سکتا ہے تو ایسے بچوں کو تعلیم دینا جو غربت کے سبب تعلیم حاصل نہیں کر رہے ہیں۔ تعلیم بالغان میں حصہ لینا۔ خود پڑھا لکھا نہیں ہے تو کسی کی مدد سے پڑھنا لکھنا سیکھنا،اسپتالوں میں مریض کی دیکھ بھال اورکمزوروں اور بے سہارا لوگوں کے کچھ کام انجام دے دینا وغیرہ سماجی سرگرمیاں انجام دلوائی جاسکتی ہیں۔
غیر اختیاری اسباب:
عمر، خاندانی (خاندان میں اگر کسی کو یہ مرض رہا ہو تو اس کا اس کے لاحق ہونے خطرہ بنا رہتا ہے) اور  مخصوص قسم کا  جین  وغیرہ ۔
قابل علاج:
فساد خون : مثلا ذیابیطس، کولیسٹرول میں اضافہ، بلڈ پریشر کا بڑھنا( یہ اسباب اسٹروک کے خطرہ کی طرف لے جاتے ہیں جو خود ایک دوسری قسم کی ڈیمنشیا کے اسباب ہیں)، تعلیمی اور پیشہ ورانہ حصولیابیوں کی کمی کبھی سرکا چوٹ: نیند کی بے ضابطگی اور سر کا چوٹ وغیرہ ۔
عالمی یوم الزائمر اورالزائمر کے مہینے کے موقع پر اے ڈی آئی  کے کوآرڈی نیٹرس دنیا بھر میں اپنے ممبران اور دیگر تنظیموں کو اس دن تقریبات منعقد کرنے کے لیے حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ ۲۰۰۹ میں اے ڈی آئی نے پہلی الزائمر رپورٹ پیش کی تھی اور ہر سال اضافی رپورٹ پیش کی جاتی ہے۔
اس دن ہمیں چاہئے کہ تقریبات کا انعقاد کر کے لوگوں  میں اس کے شکار مریضوں کے تئیں بیداری لائیں۔ اے ڈی آئی کو عطیہ دے کر بھی اپنی شمولیت درج کرائی جاسکتی ہے۔
ہم اپنے گھروں میں آس پاس اور سماج میں اکثر ایسے بوڑھے لوگوں کو پاتے ہیں جو گھروں میں سامان کو ادھر ادھر رکھ اٹ پٹی سی حرکت کرتے رہتے ہیں۔بات بات کرتے بھول جاتے ہیں۔ بات کرتے کرتے کہیں سے باتوں میں بہک جاتے ہیں۔ ایسے وقت گھر کے لوگ پریشان ہوجاتے ہیں اور کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ گھر کے لوگ ان کو ایسی حرکت پر ڈانٹ ڈپٹ سے کام لیتے ہیں یا ان کو نظر انداز کرنے لگتے ہیں۔ ایسے لوگوں سے کو الگ تھلگ رکھتے ہیں یا خود الگ تھلگ ہوجاتے ہیں۔ان کا مذاق اڑاتے ہیں۔ حالانکہ  ہمیں چاہئے کہ ایسے لوگوں   کے ساتھ ہمدردی سے پیش آئیں اور ان کے مسئلہ کو سمجھنے کی کوشش کریں ۔ساتھ ہی جو لوگ ایسا کرتے ہیں انہیں بھی اسے بیماری بتاتے ہوئے ان لوگوں کے ساتھ ہمدردی رکھنے کی اپیل کریں۔ چیزوں کو ڈھونڈنے میں ان کی مدد کریں۔ ان کے ساتھ بیٹھ کر بات چیت کریں۔ بات کرتے کچھ بھول جائیں تو ہم انہیں یاد دلائیں ۔

یاد رکھئے! یوں تو کوئی بھی بیماری کسی کو بھی لاحق ہوسکتی ہے۔ یہ بیماری جو عام طور پر بڑھاپے میں بیشتر لوگوں کو لاحق ہوتی ہے۔ ہمیں بھی اس عمر سے گزرنا ہے۔ آج ہم ان کا مذاق اڑا رہے ہیں۔ ان کے ساتھ ہمارا رویہ اچھا نہیں ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم بوڑھے ہوں تو ہمیں اس سے زیادہ لوگوں کے برے رویے کا سامنا کرنا پڑے۔ یوں بھی سوشل میڈیا نے لوگوں کو سماجی زندگی سے ہی نہیں گھر کی زندگی سے بھی کاٹ کر رکھ دیا ہے۔ ہم ساری دینا سے آن لائن ہیں اور گھر میں آف لائن۔ آنے والے دنوں میں گھر کے ضعیف اور بوڑھے افراد کو آج سے زیادہ برا دن دیکھنا ہوگا ۔ اس میں تنہائی کی زندگی سب سے بڑی مصیبت ہوگی۔

Sunday 17 September 2017

World Ozone Day

عالمی یوم اوزون(World Ozone Day)
(بین الاقوامی دن برائے تحفظ سطح اوزون)
۱۶ ستمبر
اوزون کی سطح کے تحفظ کے قوام متحدہ نے ۱۶ ستمبر کو بین الاقوامی دن برائے تحفظ سطح اوزون قرار دیا ہے۔ یہ دن ۱۹۸۷ کے اس دن کا یادگار ہے جس دن اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں مونٹریل پراٹوکول برائے تحفظ سطح اوزون (  Montreal Protocol on Substances that Deplete the Ozone Layer')  پر دستخط کیا گیا تھا۔اس دن کو یادگار بنانے کے لیے ۱۹؍ دسمبر ۱۹۹۴ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ۱۶ ستمبر کو عالمی یوم اوزون  منانے کا اعلان کیا۔ تاکہ لوگوں کو اوزون میں سوراخ ہونے کے سبب زمین پر آنے والی الٹرا وائلٹ شعاعوں کو روکنے کے لیے لوگوں میں بیداری لایا جاسکے۔  اس سے قبل یہ دن ۱۹؍ دسمبر کو ہی منایاجاتا تھا۔
اس دن کا مقصد اوزون لیئر کے تحفظ کے تئیں لوگوں میں بیداری لانا اور اس میں پیدا ہونے والے مسائل کا حل تلاش کرنا ہے۔ اس دن لوگوں کو چاہئے کہ ایک ساتھ بیٹھ کر اوزون کے مسئلہ پر بات چیت ؍ سیمینار ؍ سمپوزیم کا انعقاد کریں۔ تعلیم گاہوں میں طلبہ کے درمیان خصوصی تقریب کا انعقاد کیا جائے۔
اوزون کی تہہ زمین کے  کرہ باد میں ایک تہہ ہے جس میں اوزون گیس کی حد نسبتا زیادہ ہے. یہ 'O3' سے ظاہر ہوتی ہے. یہ تہہ سورج سے بڑی مقدار میں نکلنے والی الٹر وائلٹ شعاعوں کو کی بیشتر مقدار کو جذب کرلیتی ہے جو زمین پر زندگی کے لیے خطرناک ہے۔
’’اوزون آکسیجن کے تین ایٹمز پر مشتمل زمین کے گرد ایک شفاف اور نظر نہ آنے والی تہہ ہے۔ اوزون کی نوے فیصد مقدار زمین کی سطح سے پندرہ تا پچپن کلومیٹر اوپر بالائی فضا میں پائی جاتی ہے۔ یہ تہہ سورج کی خطرناک الٹراوائلٹ شعاعوں کو زمین تک آنے سے روکتی ہے۔ 1970ء کی دھائی میں انکشاف ہوا کہ انسانوں کے بنائے ہوئے کچھ کیمیکلزسے اوزون کی تہہ کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ یہ کیمیائی مرکبات کلوروفلور وکاربن(سی ایف سی) کہلاتے ہیں۔ ان کا استعمال اے سی اور ریفری جریٹرز میں کیا جاتا ہے۔ اوزون تہہ میں شگاف کے باعث الٹرا وائلٹ شعاعیں زمین پر پہنچ جاتی ہیں جو کئی جلدی امراض کا باعث بنتی ہیں۔ اس کے علاوہ یہ شعاعیں ماحولیاتی تبدیلیوں کا باعث بھی بن رہی ہیں۔ ماہرین کے مطابق اوزون کی تہہ کے خاتمے کی صورت میں زمین کے درجہ حرارت میں خطر ناک حد تک اضافہ ہو جائے گا اور گلیشئر ز کی برف پگھلنے سے ساحلی شہر زیر آب آجائیں گے۔ ‘‘
اوزون کے تحفظ کے لیے ضروری ہے کہ ہم ایسی مصنوعات پر کنٹرول کریں جن سے اوزون کو خطرہ لاحق ہے۔ اس سے نہ صرف اوزون کا تحفظ ہوگا بلکہ ماحولیاتی تبدیلی کے مسائل پر قابو پانے میں ہمیں مدد ملے گی۔


Engineer’s Day

یوم انجینئرس(Engineer’s Day)
15سمتبر

ہندوستان میں ۱۵ ستمبر کو ہر سال یوم انجینئرس منایا جاتا ہے۔ یہ دن ہندوستان کے ایک عظیم انجنیئر بھارت رتن سر موکشاگنڈم وسوسورایا(Mokhshagudam Visvevraya) کا یوم پیدائش ہے۔ ان کی پیدائش کرناٹک کے موڈینا ہلی کنیوینارا بایوراس میں ہوئی ہے۔ انہوں نے میسور کے پا س کاویری ندی پر تعمیر ہونے والے کرشن راجا ساگر کی تعمیر میں چیف انجنیئر کی حیثیت بڑی خدمات انجام دیں۔ انہوں نے بامبے پریزیڈنسی (مہاراشٹر) میں کئی ڈیم بھی تیار کئے۔ ان کے ذریعہ بنائے ڈیم اب بھی کئی ڈیم استعمال میں لائے جا رہے ہیں۔ ہندوستان نے ۱۹۵۵ میں ملک کا سب سے بڑ شہری ایوارڈ بھارت رتن سے نوازا۔۱۲ اپریل ۱۹۱۲ کو ان کا انتقال ہو گیا۔ یہ دن ان کے لیے ایک خراج عقیدت ہے اور ان کی علمی صلاحیتوں، مہارت، ایماندارانہ کوششوں اور اپنے کام کے  تئیں والہانہ لگاؤ کی یادگار ہے۔ اس دن قومی سطح کے انجنیئرنگ اداروں میں تقریبات کا انعقاد کیا جاتا ہے۔