Wednesday 23 March 2016

عالمی یوم تپ دن

۲۴؍ مارچ
عالمی یوم تپ دن
۲۴؍ مارچ کو عالمی یوم تپ دق  منایا جاتا ہے۔ اسی دن ۱۹۸۲ میں ڈاکٹر رابرٹ کوچ نے تپ دق کے  سبب بننے والے جراثیم ٹی بی بیسلس کی بازیافت کی تھی۔ یہ تحقیق میڈیکل سائنس کے لیے بہت بڑا قدم تھا۔ ڈاکٹر کوچ کی یہ تلاش تپ دن کی تشخیص اور علاج کے بہت بڑی چیز ہے۔ اسے ہر چھوٹی کامیابی نہیں سمجھی جاسکتی ہے کیونکہ اس وقت دنیا ٹی بی حملوں کو روکنے کی بڑی جد وجہد کر رہی تھی۔ ان سب کو دیکھتے ہوئے عالمی صحت تنظیم (ڈبلیو ایچ او) اور اقوام متحدہ کی صحت اتھاریٹی نے ۲۴؍ مارچ کو عالمی یوم تپ دق قرار دیا۔
عالمی صحت تنظیم نے ۲۰۱۵ تپ دق کے زور اور اس کی وجہ ہونے والی اموات کی شرح کو  نصف تک لانے کا ہدف متعین کیا۔ ایسا سمجھا جاتا ہے کہ ایک تہائی دنیا تپ دق سے کسی نہ کسی طور پر متاثر ہے اور جس تیزی کے ساتھ اس کا پھیلاؤ ہورہا ہے اس میں اگر ہمیں اس لعنت سے مکمل چھٹکارا حاصل کرنا ہے کہ تو ہمیں اپنی کوششیں اور بھی تیز کرنی ہوں گی۔ عالمی یوم تپ دق کا مقصد بھی یہی ہے کہ تپ دق کی عالمی وبا کو اور بیماری کو ختم کرنے کوششوں کے سلسلہ میں مزید بیداری لائی جائے۔ اس سلسلہ میں کئی ممالک اور تنظیموں کا ایک نیٹ ورک بھی ہے جسے اسٹاپ ٹی بی پارٹنر شپ (Stop T.B. Partnership) کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ نیٹ ورک ۲۴؍ مارچ کو یہ دن مناتا ہے تاکہ اس بیماری کے امکانات اور اس کوروکنے اور علاج کی کوششوں کو اجاگر کیا جاسکے۔
گرچہ ڈبلیو ایچ او کی جانب سے ٹی بی کے علاج کی بہیترے کوشش کی گئی ہے لیکن اس کے باوجود ریڈ کراس کی بیا الاقوامی کمیٹی کے مطابق یہ کوششیں ابھی ناکافی ہیں۔ کمیٹی کا مشورہ ہے کہ اگر ہم اس مہلک مرض سے نجات کی کوئی امیداور امکان چاہتے ہیں تو اعلی حکام کو اس کے لیے اضافی کوششیں کرنی ہوں گی۔ صورتحال بہت سنگین ہیں لیکن مناسب اقدامات ہوئے تو آنے والے دنوں میں اس کی تعداد کو کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔
عالمی یوم تپ دق پر مختلف طرح کے پروگرام منعقد کئے جاتے ہیں۔ طبی ایجنسیاں کمیونٹی مباحثہ کا اہتمام کرتی ہے کہ جس میں ٹی وی کی روک تھام کے طریقوں پر غور وخوض کیا جاتا ہے۔ عالمی بیداری میں اضافہ کے لیے بڑے بڑے طبی مراکز پر فوٹو نمائش کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ تپ دق کے انسداد کے طریقوں اور بیداری کو فروغ دینے کے لیے حکومتی ایجنسیوں اور کمیونٹی گروپ کی جانب سے پرنٹ، الیکٹرانک اور آن لائن میڈیا کی خدمات بھی حاصل کی جاتی ہیں۔ کئی رفاہی ادارے بھی تپ دق پر قابو پانے کے لیے مالی امداد کی فراہمی میں حصہ لیتے ہیں۔

No comments:

Post a Comment